غزل برائے اصلاح : کچھ بھی ایسا نہیں ہے کیا ، مجھ میں ؟

اشرف علی

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے ۔


غزل

کچھ بھی پہلے سا نئیں رہا مجھ میں
ہے سبھی کچھ نیا نیا مجھ میں

تو ہُوا جب سے مبتلا مجھ میں
بھر گیا ، تھا جو اک خلا مجھ میں

مجھ میں جو ہے وہ سب تمہارا ہے
یعنی کچھ بھی نہیں مِرا ، مجھ میں

اس نے بس میری آنکھیں دیکھی تھی
اور پھر کیا تھا ، کھو گیا مجھ میں

کس نے صحرا بنا دیا مجھ کو
پہلے تھا سب ہرا بھرا مجھ میں

مجھ سے کیوں بے وفائی کی تم نے
کچھ وفا کی کمی تھی کیا مجھ میں ؟

میں نے ڈھونڈا ہر اک جگہ اس کو
اور آخر میں وہ مِلا ، مجھ میں

کیا کہا ؟ بلاک کر دوں مَیں اس کو ؟
نہیں ہے اتنا حوصلا مجھ میں !

میں نے جب خود میں جھانک کر دیکھا
تو ہی تو ہر جگہ دِکھا مجھ میں

اس لیے مَیں بَلا کا ضدّی ہوں
کوئی رہتا ہے سرپھرا مجھ میں

میرے اندر اتر کے دیکھ کبھی
درد ہی درد ہے چھپا مجھ میں

میں اسے اس لیے بھی پا نہ سکا
اس کو کھونے کا ڈر جو تھا مجھ میں

جو کسی اور میں نہ ہو اشرف !
کچھ بھی ایسا نہیں ہے کیا ، مجھ میں ؟
 

اشرف علی

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے ۔


غزل

کچھ بھی پہلے سا نئیں رہا مجھ میں
ہے سبھی کچھ نیا نیا مجھ میں

تو ہُوا جب سے مبتلا مجھ میں
بھر گیا ، تھا جو اک خلا مجھ میں

مجھ میں جو ہے وہ سب تمہارا ہے
یعنی کچھ بھی نہیں مِرا ، مجھ میں

اس نے بس میری آنکھیں دیکھی تھی
اور پھر کیا تھا ، کھو گیا مجھ میں

کس نے صحرا بنا دیا مجھ کو
پہلے تھا سب ہرا بھرا مجھ میں

مجھ سے کیوں بے وفائی کی تم نے
کچھ وفا کی کمی تھی کیا مجھ میں ؟

میں نے ڈھونڈا ہر اک جگہ اس کو
اور آخر میں وہ مِلا ، مجھ میں

کیا کہا ؟ بلاک کر دوں مَیں اس کو ؟
نہیں ہے اتنا حوصلا مجھ میں !

میں نے جب خود میں جھانک کر دیکھا
تو ہی تو ہر جگہ دِکھا مجھ میں

اس لیے مَیں بَلا کا ضدّی ہوں
کوئی رہتا ہے سرپھرا مجھ میں

میرے اندر اتر کے دیکھ کبھی
درد ہی درد ہے چھپا مجھ میں

میں اسے اس لیے بھی پا نہ سکا
اس کو کھونے کا ڈر جو تھا مجھ میں

جو کسی اور میں نہ ہو اشرف !
کچھ بھی ایسا نہیں ہے کیا ، مجھ میں ؟
حوصلہ افزائی کے لیے شکر گزار ہوں محمد عبدالرؤوف بھائی اور صریر صاحب

یہاں "مبتلا" کا استعمال سمجھ نہیں آیا
کہنا یہ چاہتا ہوں کہ جب سے "میرےمحبوب کو مجھ سے پیار ہو گیا ہے تب سے میرے اندر کا خالی پن ختم ہو گیا ہے"
"مبتلا" کو عاشق /شیدا کے معنی کے طور پر استعمال کیے ہیں ...

کیا یہ استعمال ٹھیک ہے یا ردیف کی وجہ سے کچھ مسئلہ ہے ؟
پذیرائی کے لیے ممنون ہوں
خوش رہیں ...
 

اشرف علی

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے ۔


غزل

کچھ بھی پہلے سا نئیں رہا مجھ میں
ہے سبھی کچھ نیا نیا مجھ میں

تو ہُوا جب سے مبتلا مجھ میں
بھر گیا ، تھا جو اک خلا مجھ میں

مجھ میں جو ہے وہ سب تمہارا ہے
یعنی کچھ بھی نہیں مِرا ، مجھ میں

اس نے بس میری آنکھیں دیکھی تھی
اور پھر کیا تھا ، کھو گیا مجھ میں

کس نے صحرا بنا دیا مجھ کو
پہلے تھا سب ہرا بھرا مجھ میں

مجھ سے کیوں بے وفائی کی تم نے
کچھ وفا کی کمی تھی کیا مجھ میں ؟

میں نے ڈھونڈا ہر اک جگہ اس کو
اور آخر میں وہ مِلا ، مجھ میں

کیا کہا ؟ بلاک کر دوں مَیں اس کو ؟
نہیں ہے اتنا حوصلا مجھ میں !

میں نے جب خود میں جھانک کر دیکھا
تو ہی تو ہر جگہ دِکھا مجھ میں

اس لیے مَیں بَلا کا ضدّی ہوں
کوئی رہتا ہے سرپھرا مجھ میں

میرے اندر اتر کے دیکھ کبھی
درد ہی درد ہے چھپا مجھ میں

میں اسے اس لیے بھی پا نہ سکا
اس کو کھونے کا ڈر جو تھا مجھ میں

جو کسی اور میں نہ ہو اشرف !
کچھ بھی ایسا نہیں ہے کیا ، مجھ میں ؟
الف عین سر
محمّد احسن سمیع :راحل: سر
 

الف عین

لائبریرین
مبتلامیں کوئی مسئلہ نہیں، درست ہے
اس نے بس میری آنکھیں دیکھی تھی
اور پھر کیا تھا ، کھو گیا مجھ میں
بس اس میں مسئلہ لگ رہا ہے، گرامر کی رو سے 'دیکھی تھیں' ہونا چاہیے، اور عروض کی نظر میں محض آنکھ تقطیع ہو رہا ہے۔ اگر بس کی جگہ "ہی" کر دیں
اس نے آنکھیں ہی میری دیکھی تھیں
باقی سب اشعار درست ہیں
 

اشرف علی

محفلین
مبتلامیں کوئی مسئلہ نہیں، درست ہے
او کے سر
شکریہ

بس اس میں مسئلہ لگ رہا ہے، گرامر کی رو سے 'دیکھی تھیں' ہونا چاہیے، اور عروض کی نظر میں محض آنکھ تقطیع ہو رہا ہے۔ اگر بس کی جگہ "ہی" کر دیں
اس نے آنکھیں ہی میری دیکھی تھیں
بہتر ہے سر
بہت بہت شکریہ
جزاک اللّٰہ خیراً
باقی سب اشعار درست ہیں
الحمد للّٰہ
اللّٰہ آپ کو سلامت رکھے ، آمین ۔
 

اشرف علی

محفلین
غزل ( اصلاح کے بعد )

کچھ بھی پہلے سا نئیں رہا مجھ میں
ہے سبھی کچھ نیا نیا مجھ میں

تو ہُوا جب سے مبتلا مجھ میں
بھر گیا ، تھا جو اک خلا مجھ میں

مجھ میں جو ہے وہ سب تمہارا ہے
یعنی کچھ بھی نہیں مِرا ، مجھ میں

اس نے آنکھیں ہی میری دیکھی تھیں
اور پھر کیا تھا ، کھو گیا مجھ میں

کس نے صحرا بنا دیا مجھ کو
پہلے تھا سب ہرا بھرا مجھ میں

مجھ سے کیوں بے وفائی کی تم نے
کچھ وفا کی کمی تھی کیا مجھ میں ؟

میں نے ڈھونڈا ہر اک جگہ اس کو
اور آخر میں وہ مِلا ، مجھ میں

کیا کہا ؟ بلاک کر دوں مَیں اس کو ؟
نہیں ہے اتنا حوصلا مجھ میں !

میں نے جب خود میں جھانک کر دیکھا
تو ہی تو ہر جگہ دِکھا مجھ میں

اس لیے مَیں بَلا کا ضدّی ہوں
کوئی رہتا ہے سرپھرا مجھ میں

میرے اندر اتر کے دیکھ کبھی
درد ہی درد ہے چھپا مجھ میں

میں اسے اس لیے بھی پا نہ سکا
اس کو کھونے کا ڈر جو تھا مجھ میں

جو کسی اور میں نہ ہو اشرف !
کچھ بھی ایسا نہیں ہے کیا ، مجھ میں ؟
 
Top