غزل برائے اصلاح: کہوں بات جو میرے سردار کھل کر

سر الف عین عظیم شاہد شاہنواز محمّد احسن سمیع :راحل: بھائی اصلاح فرما دیجئے۔۔۔

فعولن فعولن فعولن فعولن

کہوں بات جو میرے سردار کھل کر
گلے میں نہ پڑ جائے دستار کھل کر

بہت جلد وہ چھوڑ جائے گا مجھکو
نظر آ رہے ہیں اب آثار کھل کر

اشاروں میں یوں بات کرنا نہیں ٹھیک
کیا کر محبت کا اظہار کھل کر

میں ماں کی دعا ساتھ لے کر چلا ہوں
مجھے راستہ دے گی دیوار کھل کر

مرے ساتھ عمران کوئی نہیں ہے
کیے کر زباں کے یہاں وار کھل کر

شکریہ
 
کہوں بات جو میرے سردار کھل کر
گلے میں نہ پڑ جائے دستار کھل کر
کروں بات تجھ سے جو سردار کھل کر
گلے آ پڑے گی یہ دستار کھل کر

اشاروں میں یوں بات کرنا نہیں ٹھیک
کیا کر محبت کا اظہار کھل کر
اشاروں میں باتیں مناسب نہیں ہیں
۔۔۔۔۔

میں ماں کی دعا ساتھ لے کر چلا ہوں
مجھے راستہ دے گی دیوار کھل کر
"میں ماں" کا تنافر زبان پر کھٹک رہا ہے۔ یوں سوچ کر دیکھیں
مرے ساتھ ہیں میری ماں کی دعائیں

مرے ساتھ عمران کوئی نہیں ہے
کیے کر زباں کے یہاں وار کھل کر
دوسرے مصرعے میں چونکہ فعل مستقبل کا صیغہ استعمال کر رہے ہیں اس لئے پہلے مصرعے میں "کوئی نہیں ہے" کہنا درست نہیں، کیونکہ یہاں بھی امکان مستقبل میں ظاہر کرنا ضروری ہے۔ اس کو یوں کردیں۔
مرے ساتھ عمران کوئی نہ ہوگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماشاءاللہ اچھی کاوش ہے۔ بحر تو ویسے ہی روانی میں یکتا ہے، مجھے آپ کی زمین بھی بہت پسند آئی۔ اختصار کے لئے معذرت۔

دعاگو،
راحل۔
 
آخری تدوین:
کروں بات تجھ سے جو سردار کھل کر
گلے آ پڑے گی یہ دستار کھل کر


اشاروں میں باتیں مناسب نہیں
۔۔۔۔۔


"میں ماں" کا تنافر زبان پر کھٹک رہا ہے۔ یوں سوچ کر دیکھیں
مرے ساتھ ہیں میری ماں کی دعائیں


دوسرے مصرعے میں چونکہ فعل مستقبل کا صیغہ استعمال کر رہے ہیں اس لئے پہلے مصرعے میں "کوئی نہیں ہے" کہنا درست نہیں، کیونکہ یہاں بھی امکان مستقبل میں ظاہر کرنا ضروری ہے۔ اس کو یوں کردیں۔
مرے ساتھ عمران کوئی نہ ہوگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماشاءاللہ اچھی کاوش ہے۔ بحر تو ویسے ہی روانی میں یکتا ہے، مجھے آپ کی زمین بھی بہت پسند آئی۔ اختصار کے لئے معذرت۔

دعاگو،
راحل۔
بہت شکریہ محترم یقینا اردو آپکی مادری زبان ہے اس کی باریکیوں کو زیادہ بہتر جانتے ہو۔۔۔
 
آخری تدوین:
کروں بات تجھ سے جو سردار کھل کر
گلے آ پڑے گی یہ دستار کھل کر

بہت جلد وہ چھوڑ جائے گا مجھکو
نظر آ رہے ہیں اب آثار کھل کر

اشاروں میں باتیں ، مناسب نہیں ہے
کیا کر محبت کا اظہار کھل کر

مرے ساتھ ہیں میری ماں کی دعائیں
مجھے راستہ دے گی دیوار کھل کر

میں نفرت کروں یا کروں میں محبت
ہمیشہ میں کرتا ہوں اظہار کھل کر

ترے پاس دنیا کی خبریں ہیں ، جیسے
پڑا ہو مرے آگے اخبار کھل کر

مرے ساتھ عمران کوئی نہیں ہے
کیے کر زباں کے یہاں وار کھل کر
 
آخری تدوین:
کروں بات تجھ سے جو سردار کھل کر
گلے آ پڑے گی یہ دستار کھل کر


اشاروں میں باتیں مناسب نہیں ہیں
۔۔۔۔۔


"میں ماں" کا تنافر زبان پر کھٹک رہا ہے۔ یوں سوچ کر دیکھیں
مرے ساتھ ہیں میری ماں کی دعائیں


دوسرے مصرعے میں چونکہ فعل مستقبل کا صیغہ استعمال کر رہے ہیں اس لئے پہلے مصرعے میں "کوئی نہیں ہے" کہنا درست نہیں، کیونکہ یہاں بھی امکان مستقبل میں ظاہر کرنا ضروری ہے۔ اس کو یوں کردیں۔
مرے ساتھ عمران کوئی نہ ہوگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماشاءاللہ اچھی کاوش ہے۔ بحر تو ویسے ہی روانی میں یکتا ہے، مجھے آپ کی زمین بھی بہت پسند آئی۔ اختصار کے لئے معذرت۔

دعاگو،
راحل۔
آخری مصرعے کیے کر کی جگہ تو کرنا کر دیا ہے۔۔۔
 
میرے خیال میں پہلی صورت زیادہ بہتر تھی، مفہوم واضح تھا، اب بیان الجھتا محسوس ہورہا ہے۔

دراصل میں "کئے کر" کو "کئے گر" پڑھ رہا تھا، یعنی میری دانست میں شعر یوں تھا
مرے ساتھ عمران کوئی نہ ہوگا
کئے گر زباں کے یہاں وار کھل کر
 
آخری تدوین:
میرے خیال میں پہلی صورت زیادہ بہتر تھی، مفہوم واضح تھا، اب بیان الجھتا محسوس ہورہا ہے۔

دراصل میں "کئے کر" کو "کئے گر" پڑھ رہا تھا، یعنی میری دانست میں شعر یوں تھا
مرے ساتھ عمران کوئی نہ ہوگا
کئے گر زباں کے یہاں وار کھل کر
اضافہ دیکھیے
میں نفرت کروں یا کروں میں محبت
ہمیشہ میں کرتا ہوں اظہار کھل کر

ترے پاس دنیا کی خبریں ہیں ، جیسے
پڑا ہو مرے آگے اخبار کھل کر
 
آخری تدوین:
اضافہ دیکھیے
میں نفرت کروں یا کروں میں محبت
ہمیشہ میں کرتا ہوں اظہار کھل کر

ترے پاس دنیا کی خبریں ہیں ، جیسے
پڑا ہو مرے آگے اخبار کھل کر
پہلے شعر کے الفاظ و معانی اس سے قبل کے ایک شعر سے ٹکرا رہے ہیں۔
دوسرا شعر میں نہیں سمجھ سکا۔
 
آخری تدوین:
غزل

کروں بات تجھ سے جو سردار کھل کر
گلے آ پڑے گی یہ دستار کھل کر

بہت جلد وہ چھوڑ جائے گا مجھکو
نظر آ رہے ہیں اب آثار کھل کر

اشاروں میں باتیں ، مناسب نہیں ہے
کیا کر محبت کا اظہار کھل کر

مرے ساتھ ہیں میری ماں کی دعائیں
مجھے راستہ دے گی دیوار کھل کر

تری ہر خبر ہے مرے پاس ، جیسے
پڑا ہو مرے آگے اخبار کھل کر

میں نفرت کروں یا کروں میں محبت
ہمیشہ ہی کرتا ہوں اظہار کھل کر

مرے ساتھ عمران کوئی نہیں ہے
کیے جا زباں کے یہاں وار کھل کر
 
آخری تدوین:
اس شعر کو یوں کر دیا ہے

تری ہر خبر ہے مرے پاس ، جیسے
پڑا ہو مرے آگے اخبار کھل کر
عمران بھائی، شعر تکنیکی اعتبار سے تو درست ہے، مگر معنی کے اعتبار سے غزل کے دیگر اشعار کے کمتر معیار کا ہے، یوں لگ رہا ہے جیسے کسی طرح بس اخبار کا قافیہ لانا مقصود ہو۔ میری بات اگر ناگوار محسوس ہوئی تو اس کے لئے معذرت۔

میں نفرت کروں یا کروں میں محبت
ہمیشہ میں کرتا ہوں اظہار کھل کر
دوسرے مصرعے میں ’’ہمیشہ میں‘‘ کو ’’ہمیشہ ہی‘‘ کردیں، اس طرح بیان میں تاکید پیدا ہوجائے گی۔

مقطعے کو اگر یوں ہی برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو دوسرے مصرعے میں ’’کئے کر‘‘ کو ’’کیا کر‘‘ کہیں۔ ’’کئے کر‘‘ تبھی اچھا لگتا جب غزل کا عمومی آہنگ ہی پوربی یا اودھی لہجے کا ترجمان ہوتا۔ اگر ’’کئے‘‘ ہی لانا ہے تو اس کو ’’کئے جا‘‘ کردیں۔

دعاگو،
راحلؔ
 
عمران بھائی، شعر تکنیکی اعتبار سے تو درست ہے، مگر معنی کے اعتبار سے غزل کے دیگر اشعار کے کمتر معیار کا ہے، یوں لگ رہا ہے جیسے کسی طرح بس اخبار کا قافیہ لانا مقصود ہو۔ میری بات اگر ناگوار محسوس ہوئی تو اس کے لئے معذرت۔


دوسرے مصرعے میں ’’ہمیشہ میں‘‘ کو ’’ہمیشہ ہی‘‘ کردیں، اس طرح بیان میں تاکید پیدا ہوجائے گی۔

مقطعے کو اگر یوں ہی برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو دوسرے مصرعے میں ’’کئے کر‘‘ کو ’’کیا کر‘‘ کہیں۔ ’’کئے کر‘‘ تبھی اچھا لگتا جب غزل کا عمومی آہنگ ہی پوربی یا اودھی لہجے کا ترجمان ہوتا۔ اگر ’’کئے‘‘ ہی لانا ہے تو اس کو ’’کئے جا‘‘ کردیں۔

دعاگو،
راحلؔ
بہت شکریہ بھائی۔۔۔ تدوین کر دی۔۔۔
پہلے شعر دیکھ لیتا ہوں۔۔۔ حذف کرنا پڑا تو دیر نہیں لگاؤ گا
 
Top