اشرف علی
محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے ۔
غزل
دلوں کے فاصلے کم ہو رہے ہیں
گلے لگ کر وہ ہم سے ، رو رہے ہیں
ہمارا خواب پورا ہو رہا ہے
ہم ان کے وہ ہمارے ہو رہے ہیں
کسے کس کی پڑی ہے اس جہاں میں
سب اپنا بوجھ خود ہی ڈھو رہے ہیں
جنہیں مَیں یاد کر کے رو رہا ہوں
وہ میرے ہجر میں بھی سو رہے ہیں
ذرا لے لو پڑوسی کی خبر بھی
کئی دن سے وہ بھوکے سو رہے ہیں
مِلے گا ہم کو میٹھا پھل کسی دن
کہ تخمِ صبر جو ہم بو رہے ہیں
برے دن میں اکیلا چھوڑ دیں گے
تمہارے ساتھ ہر دَم جو رہے ہیں
یہ سچ اندر سے ہم کو کھا رہا ہے
کہ سچ میں ہم تمہیں اب کھو رہے ہیں
نہ کیوں ہو ناز ہم کو خود پہ اشرف !
کسی کے دل میں ہم بھی تو رہے ہیں
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے ۔
غزل
دلوں کے فاصلے کم ہو رہے ہیں
گلے لگ کر وہ ہم سے ، رو رہے ہیں
ہمارا خواب پورا ہو رہا ہے
ہم ان کے وہ ہمارے ہو رہے ہیں
کسے کس کی پڑی ہے اس جہاں میں
سب اپنا بوجھ خود ہی ڈھو رہے ہیں
جنہیں مَیں یاد کر کے رو رہا ہوں
وہ میرے ہجر میں بھی سو رہے ہیں
ذرا لے لو پڑوسی کی خبر بھی
کئی دن سے وہ بھوکے سو رہے ہیں
مِلے گا ہم کو میٹھا پھل کسی دن
کہ تخمِ صبر جو ہم بو رہے ہیں
برے دن میں اکیلا چھوڑ دیں گے
تمہارے ساتھ ہر دَم جو رہے ہیں
یہ سچ اندر سے ہم کو کھا رہا ہے
کہ سچ میں ہم تمہیں اب کھو رہے ہیں
نہ کیوں ہو ناز ہم کو خود پہ اشرف !
کسی کے دل میں ہم بھی تو رہے ہیں