برادرم احمد، آداب!
لگتا ہے کہ آپ عروض کی ویب سائٹ کے ایک بار پھر شکار ہوگئے ہیں
مطلعے کے پہلے مصرعے میں کیوں پہلے رکن کے م کے مقابل آرہا ہے، گویا واو گر رہی ہے۔ تقطیع میں غالبا قابل قبول ہو، مگر مجھے ذاتی طور پر گرانا پسند نہیں۔
اصل مسئلہ دوسرے مصرعے میں ہے۔ یہاں سوال والے "کیا" کا محل ہے جس کا وزن فا ہوتا یے، جبکہ تقطیع میں وزن پورا کرنے کے لئے فعل والا کیا لانا پڑ رہا ہے جس کا وزن فعو ہوتا ہے۔ سو اس مصرعے کی تقطیع (وزن پورا کرنے کے حوالے سے) یوں ہو رہی ہے۔
م فا ع لن
کِ یا اِ نا
ف ع لا تن
کُ م خا بو
م فا ع لن
کِ بی ج گہ
ف ع لن
ن ر ہی
ظاہر ہے یہ درست نہیں، کیونکہ جیسا اوپر بیان کیا، یہاں سوالیہ کیا کا محل ہے جس کا تلفظ "کی یا" نہیں ہوتا۔ اگر کیا کے برمحل تلفظ کے ساتھ مصرعہ پڑھا جائے تو بحر سے خارج ہوجائے گا۔
پھر آج مہکی ہوئی ہے تمہاری خوشبو سے
تمہارے کوچے میں جانے سے پھر ہوا نہ رہی
وہ بولنے لگی آخر منا لیا ہم نے
زیادہ دیر تو تصویر بھی خفا نہ رہی
ان دونوں اشعار کا مفہوم مجھ پر واضح نہیں ہوسکا، خاص کر پہلے والا۔ میرا مشورہ ہے کہ ان کی نثر لکھ کر شعر کے ساتھ موازنہ کریں کہ آیا مفہوم واضح ہورہا ہے یا نہیں۔
تمہاری خیر ہی مانگی خدا سے جب مانگا
لبوں پہ اپنے لیے کوئی بھی دعا نہ رہی
میرے خیال میں تو درست ہے، بلکہ پسند آیا۔ پہلے مصرعے کے الفاظ کی ترتیب بدل کر مختلف صورتیں بنا کر دیکھی جاسکتی ہیں، ممکن ہے شعر مزید نکھر جائے
تجھے رلائیں گے تیری نگر کے سناٹے
ترے نگر میں دِوانوں کی جب صدا نہ رہی
پہلے مصرعے میں آپ نے مستقبل کا صیغہ استعمال کیا ہے جبکہ دوسرے میں ماضی کا، جو درست نہیں لگتا، یعنی مصرعہ ثانی میں "صدا نہ رہے گی" کا محل ہے، جس کے بغیر مفہوم ادا نہیں ہوپائے گا۔ ردیف کی بندش کی وجہ سے اس مضمون میں مستقبل کا صیغہ استعمال کرنا شاید ممکن نہ ہو۔
دوسرے یہ کہ یہاں ٹائپو رہ گیا ہے، تیری نگر لکھا ہوا ہے، اس کو درست کرلیں۔
دعاگو،
راحل۔