غزل برائے اصلاح -کیا ضروری ہے، محبت ہو، بیاں بھی کر دوں ۔ از محمد اظہر نذیر

کیا ضروری ہے، محبت ہو، عیاں بھی کر دوں
وہ بھی ایسا ہی کرے گی، یہ گماں بھی کر دوں

جو کہیں دِل کے نہاں خانے چھپائی ہم نے
ہے کوئی قصہ کہانی ، جو بیاں بھی کر دوں

اُس نے انکار کیا، اور اُسے گم کر بیٹھا؟
میرا احساس سہی جھوٹا، زیاں بھی کر دوں

مجھکو مشکل تو نہیں، جو یہ مرا گھر ہی رہے
وہ مکیں جس کا نہیں، کیسے مکاں بھی کر دوں

ہاں یہ لگتا ہے بھلا، اگنی رکھوں سینے میں
ایک دل کی آہ ضروری ہے، فغاں بھی کر دوں

سب سے بہتر تو ہے اظہر جی سلگتے رہنا
میری برباد رُتیں، اُسکی خزاں بھی کر دوں​

اساتذہ کرام،
نہایت ادب سے گزارش لیے حاضر ہوں، رہنمائی کیجیے
بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
والسلام
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
اصلاح حاضر ہے اظہر


کیا ضروری ہے، محبت ہو، عیاں بھی کر دوں
وہ بھی ایسا ہی کرے گی، یہ گماں بھی کر دوں

///’گماں‘ کر دیا جانا محاورہ نہیں، محض کیا جانا ہوتا ہے، گماں کروں اور گماں کر دوں ہم معنی نہیں ہیں۔ اس لحاظ سے دوسرا قافیہ درست نہیں۔ پہلا مصرع بھی اس طرح زیادہ رواں ہو جاتا ہے:
کیا ضروری ہے، محبت کو عیاں بھی کر دوں
دوسرا مصرع یوں کیا جا سکتا ہے
کچھ تو اسرار بھی رکھوں کہ بیاں بھی کر دوں

جو کہیں دِل کے نہاں خانے چھپائی ہم نے
ہے کوئی قصہ کہانی ، جو بیاں بھی کر دوں
////پہلے مصرع میں ’نے‘ نہ ہونے سے نا مکمل لگتا ہے
جو نہاں خانے میں دل کے ہے چھپائی ہم نے
کیا جا سکتا ہے،
لیکن دوسرا مصرع؟ نہاں خانے میں کہانی چھپائی تو نہیں جا سکتی ، محبوب کی تصویر ہو سکتی ہے، ویسے اگر ابہام ہی مقصد ہے تو چل بھی سکتا ہے۔ دوسرا مصرع اسی طرح چلنے دو۔ اگرچہ تفہیم میں کمی ہے۔

اُس نے انکار کیا، اور اُسے گم کر بیٹھا؟
میرا احساس سہی جھوٹا، زیاں بھی کر دوں
/// میری ناقص عقل میں اس کا مفہوم نہیں آ سکا۔

مجھکو مشکل تو نہیں، جو یہ مرا گھر ہی رہے
وہ مکیں جس کا نہیں، کیسے مکاں بھی کر دوں
/// ایضاً

ہاں یہ لگتا ہے بھلا، اگنی رکھوں سینے میں
ایک دل کی آہ ضروری ہے، فغاں بھی کر دوں
//یہاں سنسکرت کا اگنی فٹ نہیں بیٹھتا، کیا حرج ہے کہ اسے ’شعلہ‘ کر دیا جائے۔ لیکن ثانی مصرع؟؟؟ تفہیم بھی نہیں ہو سکی جو اصلاح کر سکوں کہ وزن میں آ جائے۔

سب سے بہتر تو ہے اظہر جی سلگتے رہنا
میری برباد رُتیں، اُسکی خزاں بھی کر دوں
///دونوں مصرعوں میں تعلق؟ پہلا مصرع تو واضح ہے، لیکن دوسرے مصرعے کا مطلب سمجھنے سے قاصر ہوں جو اصلاح کرنے کی کوشش کروں۔ کیا یہ مراد ہے کہ جس نے میری رتیں برباد کی ہیں، اس کی بہار کو خزاں میں بدل دوں۔۔ لیکن یہ مفہوم پہلے مصرع سے غیر متعلق ہے، اس میں تو تم اپنی بربادی پر بھی پر سکون لگتے ہو، راضی برضا!!۔

مجموعی طور پر۔۔۔ اس کی خوشی ہوئی کہ اب بحور و اوزان کا احساس تم کو ہو چلا ہے۔ لیکن ابھی لگتا ہے کہ مفہوم کی ترسیل نہیں کر پا رہے۔ ایک بات اور۔۔ عام طور پر نو مشق، بلکہ اساتذہ بھی غزل اس طرح کہتے ہیں کہ قوافی اور ردیف سے مصرع بنانے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس طرح پہلے دوسرا مصرع ’پیدا‘ ہوتا ہے۔ اس پر پہلے مصرعے سے گرہ لگائی جاتی ہے۔ لیکن تمہارے سلسلے میں بات الٹی لگتی ہے۔ تمہارے پہلے مصرعے اکثر قابل فہم، بلکہ اچھے مفہوم کے ہوتے ہیں۔ کیا واقعی پہلے پہلا مصرع ہی کہتے ہو اظہر؟
 
اصلاح حاضر ہے اظہر


کیا ضروری ہے، محبت ہو، عیاں بھی کر دوں
وہ بھی ایسا ہی کرے گی، یہ گماں بھی کر دوں

///’گماں‘ کر دیا جانا محاورہ نہیں، محض کیا جانا ہوتا ہے، گماں کروں اور گماں کر دوں ہم معنی نہیں ہیں۔ اس لحاظ سے دوسرا قافیہ درست نہیں۔ پہلا مصرع بھی اس طرح زیادہ رواں ہو جاتا ہے:
کیا ضروری ہے، محبت کو عیاں بھی کر دوں
دوسرا مصرع یوں کیا جا سکتا ہے
کچھ تو اسرار بھی رکھوں کہ بیاں بھی کر دوں

بہت بہتر اُستادِ محترم
کیا ضروری ہے، محبت کو عیاں بھی کر دوں
کچھ تو اسرار بھی رکھوں کہ بیاں بھی کر دوں


جو کہیں دِل کے نہاں خانے چھپائی ہم نے
ہے کوئی قصہ کہانی ، جو بیاں بھی کر دوں
////پہلے مصرع میں ’نے‘ نہ ہونے سے نا مکمل لگتا ہے
جو نہاں خانے میں دل کے ہے چھپائی ہم نے
کیا جا سکتا ہے،
لیکن دوسرا مصرع؟ نہاں خانے میں کہانی چھپائی تو نہیں جا سکتی ، محبوب کی تصویر ہو سکتی ہے، ویسے اگر ابہام ہی مقصد ہے تو چل بھی سکتا ہے۔ دوسرا مصرع اسی طرح چلنے دو۔ اگرچہ تفہیم میں کمی ہے۔

جی بہتر ہے
جو نہاں خانے میں دل کے ہے چھپائی ہم نے
ہے کوئی قصہ کہانی ، جو بیاں بھی کر دوں


اُس نے انکار کیا، اور اُسے گم کر بیٹھا؟
میرا احساس سہی جھوٹا، زیاں بھی کر دوں
/// میری ناقص عقل میں اس کا مفہوم نہیں آ سکا۔

جی یہاں مراد یہ تھی کہ ایک جھوٹا سا احساس ہے کہ شائد اُسے محبت ہو گی، اگر یہ بھرم بھی ٹوٹ گیا تو کیا ہو گا؟ اگر یوں کریں تو کیسا رہے گا؟
اُس نے انکار کیا، میں نے بھی سُبکی جانی
اِک تماشا ہے، خیالوں کو زباں بھی کر دوں


مجھکو مشکل تو نہیں، جو یہ مرا گھر ہی رہے
وہ مکیں جس کا نہیں، کیسے مکاں بھی کر دوں
/// ایضاً

جی یہاں گھر سے مراد ایک خالی جگہ ہے جس میں کوئی اور نہیں رہتا اور وہ مکان تبھی بن سکتا ہے جب وہ اُس میں رہنے لگے، لیکن اگر وہ اس میں نہیں رہتا تو میں گھر کو مکاں کیسے کہوں



ہاں یہ لگتا ہے بھلا، اگنی رکھوں سینے میں
ایک دل کی آہ ضروری ہے، فغاں بھی کر دوں
//یہاں سنسکرت کا اگنی فٹ نہیں بیٹھتا، کیا حرج ہے کہ اسے ’شعلہ‘ کر دیا جائے۔ لیکن ثانی مصرع؟؟؟ تفہیم بھی نہیں ہو سکی جو اصلاح کر سکوں کہ وزن میں آ جائے۔

جی اگر یوں کہوں تو؟
سوچتا ہوں کہ رگِ جاں میں بسا لوں شعلے
آگ سانسوں میں دِکھے، ایسی فغاں بھی کر دوں


سب سے بہتر تو ہے اظہر جی سلگتے رہنا
میری برباد رُتیں، اُسکی خزاں بھی کر دوں
///دونوں مصرعوں میں تعلق؟ پہلا مصرع تو واضح ہے، لیکن دوسرے مصرعے کا مطلب سمجھنے سے قاصر ہوں جو اصلاح کرنے کی کوشش کروں۔ کیا یہ مراد ہے کہ جس نے میری رتیں برباد کی ہیں، اس کی بہار کو خزاں میں بدل دوں۔۔ لیکن یہ مفہوم پہلے مصرع سے غیر متعلق ہے، اس میں تو تم اپنی بربادی پر بھی پر سکون لگتے ہو، راضی برضا!!۔

اسے اگر یوں کہا جائے تو؟
کتنا اچھا ہو سلگتا رہے اظہر ہر دم
شمع محفل سا جلوں ، خود کو دھواں بھی کر دوں


مجموعی طور پر۔۔۔ اس کی خوشی ہوئی کہ اب بحور و اوزان کا احساس تم کو ہو چلا ہے۔ لیکن ابھی لگتا ہے کہ مفہوم کی ترسیل نہیں کر پا رہے۔ ایک بات اور۔۔ عام طور پر نو مشق، بلکہ اساتذہ بھی غزل اس طرح کہتے ہیں کہ قوافی اور ردیف سے مصرع بنانے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس طرح پہلے دوسرا مصرع ’پیدا‘ ہوتا ہے۔ اس پر پہلے مصرعے سے گرہ لگائی جاتی ہے۔ لیکن تمہارے سلسلے میں بات الٹی لگتی ہے۔ تمہارے پہلے مصرعے اکثر قابل فہم، بلکہ اچھے مفہوم کے ہوتے ہیں۔ کیا واقعی پہلے پہلا مصرع ہی کہتے ہو اظہر؟

جی اُستادِ گرامی بلکل صحیع فرمایا آپ نے، میری ہر کاوش مصرع اولا پے ہی بنتی ہے



کیا ضروری ہے، محبت کو عیاں بھی کر دوں
کچھ تو اسرار بھی رکھوں کہ بیاں بھی کر دوں

جو نہاں خانے میں دل کے ہے چھپائی ہم نے
ہے کوئی قصہ کہانی ، جو بیاں بھی کر دوں

اُس نے انکار کیا، میں نے بھی سُبکی جانی
اِک تماشا ہے، خیالوں کو زباں بھی کر دوں

مجھکو مشکل تو نہیں، جو یہ مرا گھر ہی رہے
وہ مکیں جس کا نہیں، کیسے مکاں بھی کر دوں

سوچتا ہوں کہ رگِ جاں میں بسا لوں شعلے
آگ سانسوں میں دِکھے، ایسی فغاں بھی کر دوں

کتنا اچھا ہو سلگتا رہے اظہر ہر دم
شمع محفل سا جلوں ، خود کو دھواں بھی کر دوں​
 

الف عین

لائبریرین
اُس نے انکار کیا، میں نے بھی سُبکی جانی
اِک تماشا ہے، خیالوں کو زباں بھی کر دوں
’اِک تماشا ہے‘ کیوں؟ واضح نہیں۔
یوں کہو تو
کیوں نہ اب اپنے خیالوں کو زباں بھی کر دوں


مجھکو مشکل تو نہیں، جو یہ مرا گھر ہی رہے
وہ مکیں جس کا نہیں، کیسے مکاں بھی کر دوں
یہ اب بھی واضح نہیں ہے، تمہارا بتایا مفہوم آسانی سے برامد نہیں ہوتا۔

سوچتا ہوں کہ رگِ جاں میں بسا لوں شعلے
آگ سانسوں میں دِکھے، ایسی فغاں بھی کر دوں
پہلا مصرع تو بہت پسند آیا، یہ میرے مصرع سے بہتر ہے۔ لیکن دوسرے میں ’دکھے‘ اچھا نہیں لگتا۔۔ اور ’فغاں کر دوں‘ بھی درست نہیں۔ ہر جگہ ’کروں‘ کے بدلے میں ’کر دوں‘ نہیں ہو سکتا۔
کوئی اور مصرع کہو یا یہ شعر ہی چھوڑ دو۔

کتنا اچھا ہو سلگتا رہے اظہر ہر دم
شمع محفل سا جلوں ، خود کو دھواں بھی کر دوں
اس میں بھی ایک غلطی ہے، دوسرے مصرع میں ضمیر ‘میں‘ ہے، لیکن پہلے مصرع میں اظہر نام ہے، خیر وہ تخلص سہی، لیکن سلگتا ’رہے‘ غلط ہے۔ ۃاں، اگر ’سلگتا رہوں‘ ہو تو درست ہے۔
 
اُس نے انکار کیا، میں نے بھی سُبکی جانی
اِک تماشا ہے، خیالوں کو زباں بھی کر دوں
’اِک تماشا ہے‘ کیوں؟ واضح نہیں۔
یوں کہو تو
کیوں نہ اب اپنے خیالوں کو زباں بھی کر دوں

جی بہت بہتر
اُس نے انکار کیا، میں نے بھی سُبکی جانی
کیوں نہ اب اپنے خیالوں کو زباں بھی کر دوں


مجھکو مشکل تو نہیں، جو یہ مرا گھر ہی رہے
وہ مکیں جس کا نہیں، کیسے مکاں بھی کر دوں
یہ اب بھی واضح نہیں ہے، تمہارا بتایا مفہوم آسانی سے برامد نہیں ہوتا۔

جی دوسرا شعر حاضر ہے
جی یہ کرتا ہے کہ سیلاب بہا دوں رو کر
میں تو برباد ہوا، سارا جہاں بھی کر دوں


سوچتا ہوں کہ رگِ جاں میں بسا لوں شعلے
آگ سانسوں میں دِکھے، ایسی فغاں بھی کر دوں
پہلا مصرع تو بہت پسند آیا، یہ میرے مصرع سے بہتر ہے۔ لیکن دوسرے میں ’دکھے‘ اچھا نہیں لگتا۔۔ اور ’فغاں کر دوں‘ بھی درست نہیں۔ ہر جگہ ’کروں‘ کے بدلے میں ’کر دوں‘ نہیں ہو سکتا۔
کوئی اور مصرع کہو یا یہ شعر ہی چھوڑ دو۔

جی اگر یوں کہا جائے تو؟
سوچتا ہوں کہ رگِ جاں میں بسا لوں شعلے
آگ نس نس میں جلے، ایسا سماں بھی کر دوں


کتنا اچھا ہو سلگتا رہے اظہر ہر دم
شمع محفل سا جلوں ، خود کو دھواں بھی کر دوں
اس میں بھی ایک غلطی ہے، دوسرے مصرع میں ضمیر ‘میں‘ ہے، لیکن پہلے مصرع میں اظہر نام ہے، خیر وہ تخلص سہی، لیکن سلگتا ’رہے‘ غلط ہے۔ ۃاں، اگر ’سلگتا رہوں‘ ہو تو درست ہے۔

جی بہت بہتر
کتنا اچھا ہو سلگتا رہوں اظہر ہر دم
شمع محفل سا جلوں ، خود کو دھواں بھی کر دوں


اور آپ کی اجازت ہو تو مظلع میں بیاں کی جگہ نہاں کر دوں، کیونکہ دو اشعار میں بیاں آ گیا ہے؟

کیا ضروری ہے، محبت کو عیاں بھی کر دوں
کچھ تو اسرار بھی رکھوں کہ نہاں بھی کر دوں

جو نہاں خانے میں دل کے ہے چھپائی ہم نے
ہے کوئی قصہ کہانی ، جو بیاں بھی کر دوں

اُس نے انکار کیا، میں نے بھی سُبکی جانی
کیوں نہ اب اپنے خیالوں کو زباں بھی کر دوں

جی یہ کرتا ہے کہ سیلاب بہا دوں رو کر
میں تو برباد ہوا، سارا جہاں بھی کر دوں

سوچتا ہوں کہ رگِ جاں میں بسا لوں شعلے
آگ نس نس میں جلے، ایسا سماں بھی کر دوں

کتنا اچھا ہو سلگتا رہوں اظہر ہر دم
شمع محفل سا جلوں ، خود کو دھواں بھی کر دوں​
 

الف عین

لائبریرین
نہیں اظہر، مطلع میں بیاں ہی درست ہے، نہاں سے تو مطلب خبط ہو جاتا ہے (ورنہ اسرار والا فقرہ بدلنا پڑے گا)۔
میرا مشورہ ہے کہ بیاں ہی رہنے دو، اور دوسرے ’بیاں‘ قافئے والے شعر کو پانچواں شعر بنا دو۔
 
نہیں اظہر، مطلع میں بیاں ہی درست ہے، نہاں سے تو مطلب خبط ہو جاتا ہے (ورنہ اسرار والا فقرہ بدلنا پڑے گا)۔
میرا مشورہ ہے کہ بیاں ہی رہنے دو، اور دوسرے ’بیاں‘ قافئے والے شعر کو پانچواں شعر بنا دو۔

جی بہت بہتر اُستادِ محترم

کیا ضروری ہے، محبت کو عیاں بھی کر دوں
کچھ تو اسرار بھی رکھوں کہ بیاں بھی کر دوں

اُس نے انکار کیا، میں نے بھی سُبکی جانی
کیوں نہ اب اپنے خیالوں کو زباں بھی کر دوں

جی یہ کرتا ہے کہ سیلاب بہا دوں رو کر
میں تو برباد ہوا، سارا جہاں بھی کر دوں

سوچتا ہوں کہ رگِ جاں میں بسا لوں شعلے
آگ نس نس میں جلے، ایسا سماں بھی کر دوں

جو نہاں خانے میں دل کے ہے چھپائی ہم نے
ہے کوئی قصہ کہانی ، جو بیاں بھی کر دوں

کتنا اچھا ہو سلگتا رہوں اظہر ہر دم
شمع محفل سا جلوں ، خود کو دھواں بھی کر دوں
 
Top