ہر گام پہ دھوکہ ہے مگر دیکھ رہے ہیں
ہم اپنے ہی قاتِل کا ہنر دیکھ رہے ہیں
اچھا شعر ہے، درست
کس درجہ پہ جاؤ گے، ذرا یہ تو بتا دو
ہم تری اداؤں کا ثمر دیکھ رہے ہیں
بے معنی ہے جب تک کہ شاعر اس کا مطلب نہ سمجھائے۔ اس کے علاوہ ’تری‘ نہیں ’تیری‘ بحر میں آتا ہے، مبتدی حضرات کو لکھنے میں بھی اس کا بہت خیال رکھنا چاہئے، کہ کہاں ’ترا‘، ’مرا‘، آ رہا ہے اور کہاں مکمل ’تیرا‘، ’میرا‘
کِس درجہ ستائیں گے کوئی یہ تو بتا دو
ہم اُنکی اداؤں کا ثمر دیکھ رہے ہیں
اب تُو نے کیا زِیر ہمیں ہائے ری قسمت
گیدڑ کو بھی شیروں پہ زبَر دیکھ رہے ہیں
قسمت کس کی؟ ہائے ری قسمت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مطلب بد قسمتی سے ہے، یعنی ہماری بد بختی۔ لیکن یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جنہوں نے زیر کیا ہے، ان کی خوش قسمتی پر رشک آ رہا ہے۔ ایک آنچ کی کسر ہے اس شعر میں۔ ویسے درست ہے۔
ہیاں سمجھ نہیں آ رہا کیا کروں
ہم بھول چکے ہیں کے کہاں جانے کو نکلے
مڑنا ہے اِدھر اور اُدھر دیکھ رہے ہیں
ہم بھول چکے ہیں کہ کہاں جانے کو نکلے
مڑنا ہے اِدھر اور اُدھر دیکھ رہے ہیں
یہاں بھی ’کے‘ نہیں، ’کہ‘ کا محل ہے۔ باقی درست۔
اے مردِ مسلمان ذرا یہ بھی تو سوچو
ممکن ہے کہ اللہ کا حزر دیکھ رہے ہیں
حزر؟ میری سمجھ میں نہیں آئا، اور پھر ’ممکن ہے‘ کیوں۔ اس کے علاوہ ’اے مرد مسلمان‘ کا تخاطب یہاں واحد کلمۂ تخاطب کا متقاضی ہے، یعنی ‘تو‘ کا، خیر اس کی اصلاح کی جا سکتی ہے جیسے
اے مردِ مسلمان ذرا سوچ تو اتنا
اے مردِ مسلمان ذرا سوچ تو اتنا
ایسا ہے کہ اللہ کا حزر دیکھ رہے ہیں
اندر سے جو کالا ہے اُسے کہتے ہو ابیض
خضرا کے مکیں کون سا گھر دیکھ رہے ہیں
یہ بھی میری سمجھ میں نہیں آیا اس لئے کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔
ہیاں مراد بہت ابیض سے ہے جو بد قسمتی سے ہمارا قبلہ بن چکا ہے- جبکہ ہم گمبدِ خضرا کے مکیں ہیں
مسلم ہو تو پھر جاؤ کہیں مکہ مدینے
کِس راہ پہ چلنا تھا، کدھر دیکھ رہے ہیں
درست، اگرچہ کہنا کیا چاہ رہے ہو، اس کا سوال باقی رہتا ہے۔
یہاں مراد یہ ہے کہ ہم لوگ مکہ مدیننہ کی طرف جانے کی بجائے امریکہ کی طرف جاتے ہیں
کملی جو ملے تجھ کو وہی سبز لپیٹو
سب عاشِقِ اظہر کہ اگر دیکھ رہے ہیں
یہ بھی میری فہم سے بالاتر ہے۔ اس لئے چپ ہوں۔
سبز رنگ اللہ کے رسول کا پسندیدہ تھا اُسی طرف اشارہ کیا تھا کہ عاشقِ رسول یہی رنگ پہنیں
ہر گام پہ دھوکہ ہے مگر دیکھ رہے ہیں
ہم اپنے ہی قاتِل کا ہنر دیکھ رہے ہیں
کِس درجہ ستائیں گے کوئی یہ تو بتا دو
ہم اُنکی اداؤں کا ثمر دیکھ رہے ہیں
اب تُو نے کیا زِیر ہمیں ہائے ری قسمت
گیدڑ کو بھی شیروں پہ زبَر دیکھ رہے ہیں
ہم بھول چکے ہیں کہ کہاں جانے کو نکلے
مڑنا ہے اِدھر اور اُدھر دیکھ رہے ہیں
اے مردِ مسلمان ذرا سوچ تو اتنا
ایسا ہے کہ اللہ کا حزر دیکھ رہے ہیں
اندر سے جو کالا ہے اُسے کہتے ہو ابیض
خضرا کے مکیں کون سا گھر دیکھ رہے ہیں
مسلم ہو تو پھر جاؤ کہیں مکہ مدینے
کِس راہ پہ چلنا تھا، کدھر دیکھ رہے ہیں
کملی جو ملے تجھ کو وہی سبز لپیٹو
سب عاشِقِ اظہر کہ اگر دیکھ رہے ہیں