غزل برائے اصلاح ۔۔۔کبھی یہ تیغِ تمنا بھی بے نیام نہ ہو

منذر رضا

محفلین
السلام علیکم، اساتذہ سے اصلاح کی درخواست ہے
الف عین
یاسر شاہ
فلسفی
عظیم
محمد خلیل الرحمٰن

خدا کرے کہ سفر میں کوئی مقام نہ ہو
رفاقتوں کی کہانی کبھی تمام نہ ہو
طرب کے گیت تو گاؤں حیات میں لیکن
یہ وحشتوں کو مرا آخری سلام نہ ہو!
مثالِ موسمِ وصلت یہ رت گزر جائے
خدا کرے تری فرقت کو بھی دوام نہ ہو!
نیامِ حرف میں پنہاں مثالِ حال رہے
کبھی یہ تیغِ تمنا بھی بے نیام نہ ہو
دعا یہ دی ہے غمِ عشق نے مرے دل کو
ترا کوئے غمِ دوراں میں اب قیام نہ ہو
خدا کرے کہ مثالِ عوام تجھ کو بھی
مری وفا کی صداقت میں کچھ کلام نہ ہو!

شکریہ!
 

فلسفی

محفلین
خدا کرے کہ سفر میں کوئی مقام نہ ہو
رفاقتوں کی کہانی کبھی تمام نہ ہو
واہ بہت خوب

مثالِ موسمِ وصلت یہ رت گزر جائے
خدا کرے تری فرقت کو بھی دوام نہ ہو!
واہ لیکن یہ موسمِ وصلت کچھ کھٹک رہا ہے۔

دعا یہ دی ہے غمِ عشق نے مرے دل کو
ترا کوئے غمِ دوراں میں اب قیام نہ ہو
کیا کہنے

خدا کرے کہ مثالِ عوام تجھ کو بھی
مری وفا کی صداقت میں کچھ کلام نہ ہو!
عوام کی جگہ اگر رقیب لگا دیں تو لطف آ جائے گا۔
 

عظیم

محفلین
خدا کرے کہ سفر میں کوئی مقام نہ ہو
رفاقتوں کی کہانی کبھی تمام نہ ہو
۔۔۔۔مطلع غیر واضح ہے، مقام ہونے سے رفاقتوں کی کہانی پر کیا اثر پڑتا ہے اس بات کی سمجھ نہیں آتی۔ ہاں اگر یہ کہا جاتا کہ بچھڑنے یا جدا ہونے کا کوئی مقام نہ ہو تو بات بن سکتی تھی

طرب کے گیت تو گاؤں حیات میں لیکن
یہ وحشتوں کو مرا آخری سلام نہ ہو!
۔۔۔۔شعر بہت اچھا ہے، ایک معمولی سی خامی 'گیت تو' میں ت کی تکرار کی وجہ سے ہے۔ دوسری بات 'حیات' کی جگہ 'زندگی' استعمال کریں ۔ 'حیات' میں تھؤری بناوٹ یا دکھاوے جیسی کیفیت آ جاتی ہے

مثالِ موسمِ وصلت یہ رت گزر جائے
خدا کرے تری فرقت کو بھی دوام نہ ہو!
۔۔۔۔وصلت کے بارے میں بابا بہتر بتا سکتے ہیں، اس کے علاوہ شعر درست لگ رہا ہے

نیامِ حرف میں پنہاں مثالِ حال رہے
کبھی یہ تیغِ تمنا بھی بے نیام نہ ہو
۔۔۔۔یہ شعر بھی درست ہے

دعا یہ دی ہے غمِ عشق نے مرے دل کو
ترا کوئے غمِ دوراں میں اب قیام نہ ہو
۔۔۔'کوئے' میں 'و' کا گرنا اچھا نہیں لگ رہا۔

خدا کرے کہ مثالِ عوام تجھ کو بھی
مری وفا کی صداقت میں کچھ کلام نہ ہو!
۔۔۔۔۔ فلسفی کا کہنا بھی ٹھیک ہے لیکن مجھے ذاتی طور پر اسی حالت میں شعر اچھا لگ رہا ہے
 

الف عین

لائبریرین
وصلت بجائے وصل کے درست ہے
مطلع میں شاید مقام بجائے منزل کے لایا گیا ہے، لیکن محض مقام اصل معنی میں تو نا ممکن ہے کہ سفر میں کوئی مقام ہی نہ ہو!
عظیم سے متفق ہوں، اور فلسفی کی 'رقابت' سے بھی!( مراد رقیب والی بات)
 

عظیم

محفلین
الف عین صاحب۔۔۔مطلع میں کوئی تبدیلی تجویز فرما دیجیے
صبح پہلے مصرع کی ایک صورت ذہن میں آئی تھی کہ مقام کی جگہ قیام لے آیا جائے لیکن دوسرے مصرع کو ذہن میں رکھا تو یہ لکھنا رہنے دیا تھا۔ اب ایک مکمل شعر اس طرح ہو سکتا ہے لیکن وہ شعر میرا ہی ہو جائے گا
خدا کرے کہ سفر میں کہیں قیام نہ ہو
مسافتوں کا یہ قصہ کبھی تمام نہ ہو
 
السلام علیکم، اساتذہ سے اصلاح کی درخواست ہے
الف عین
یاسر شاہ
فلسفی
عظیم
محمد خلیل الرحمٰن

خدا کرے کہ سفر میں کوئی مقام نہ ہو
رفاقتوں کی کہانی کبھی تمام نہ ہو
طرب کے گیت تو گاؤں حیات میں لیکن
یہ وحشتوں کو مرا آخری سلام نہ ہو!
مثالِ موسمِ وصلت یہ رت گزر جائے
خدا کرے تری فرقت کو بھی دوام نہ ہو!
نیامِ حرف میں پنہاں مثالِ حال رہے
کبھی یہ تیغِ تمنا بھی بے نیام نہ ہو
دعا یہ دی ہے غمِ عشق نے مرے دل کو
ترا کوئے غمِ دوراں میں اب قیام نہ ہو
خدا کرے کہ مثالِ عوام تجھ کو بھی
مری وفا کی صداقت میں کچھ کلام نہ ہو!

شکریہ!
نیامِ حرف میں پنہاں مثالِ حال رہے
کبھی یہ تیغِ تمنا بھی بے نیام نہ ہو
بہت خوب ماشاءاللہ
 

عظیم

محفلین
منذر رضا اور سعید احمد سجاد نے پسندیدہ جب کہ فلسفی نے زبردست کی ریٹنگ میرے اس لڑے کے پچھلے مراسلے کو دے تو دی ہے مگر اس شعر میں ایک معنوی غلطی مجھے یہ محسوس ہوئی کہ قیام کا مطلب یہ تو نہیں ہوتا کہ سفر ختم ہو گیا ہے۔ قیام کے بعد بھی سفر دوبارہ شروع کیا جا سکتا ہے۔ اس لحاظ سے مجھے یہ شعر دو لخت محسوس ہو رہا ہے
 

یاسر شاہ

محفلین
منذر رضا اور سعید احمد سجاد نے پسندیدہ جب کہ فلسفی نے زبردست کی ریٹنگ میرے اس لڑے کے پچھلے مراسلے کو دے تو دی ہے مگر اس شعر میں ایک معنوی غلطی مجھے یہ محسوس ہوئی کہ قیام کا مطلب یہ تو نہیں ہوتا کہ سفر ختم ہو گیا ہے۔ قیام کے بعد بھی سفر دوبارہ شروع کیا جا سکتا ہے۔ اس لحاظ سے مجھے یہ شعر دو لخت محسوس ہو رہا ہے
عظیم صاحب ما شاء اللہ آپ خوب تنقید کرتے ہیں -میں آپ کے تجزیے پڑھتا رہتا ہوں اور خوش ہوتا ہوں -
یہاں میں آپ سے متفق ہوں میرے ذہن میں بھی قافیہ "قیام" آیا تھا لیکن یہی آپ کی بات میرے ذہن میں بھی آئی لہذا مشوره نہیں دیا -یہ شعر دوبارہ کہنے کی ضرورت ہے - ویسے آپ کے حوصلے کی داد دیتا ہوں کہ آپ خود پر بھی تنقید کر سکتے ہیں -یہ اچھی بات ہے، خاص فضل الہی ہے -
نیامِ حرف میں پنہاں مثالِ حال رہے
کبھی یہ تیغِ تمنا بھی بے نیام نہ ہو
۔۔۔۔یہ شعر بھی درست ہے
یہ شعر مجھے کچھ خام محسوس ہوا -کیونکہ نیامِ حرف کے ساتھ حال کا کوئی جوڑ میری سمجھ میں تو کم از کم نہیں آیا -پھر اگلے مصرع میں "بھی " بھی بھرتی کا لگا -

خدا کرے کہ مثالِ عوام تجھ کو بھی
مری وفا کی صداقت میں کچھ کلام نہ ہو!
۔۔۔۔۔ فلسفی کا کہنا بھی ٹھیک ہے لیکن مجھے ذاتی طور پر اسی حالت میں شعر اچھا لگ رہا ہے
یہاں مجھے فلسفی کی رقیب کی تجویز زیادہ بھائی کہ بقول غالب :
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے
 

الف عین

لائبریرین
عظیم صاحب ما شاء اللہ آپ خوب تنقید کرتے ہیں -میں آپ کے تجزیے پڑھتا رہتا ہوں اور خوش ہوتا ہوں
عظیم نے سینکڑوں غزلوں پر میری اصلاح لی ہے اور ان سب غزلوں کو ردی کی ٹوکری کی نذر کرنے کے باوجود میری باتوں کو گرہ میں باندھ لیا ہے۔ یاسر شاہ کو مجھ سے زیادہ خوشی نہیں ہو سکتی۔
 

یاسر شاہ

محفلین
۔ یاسر شاہ کو مجھ سے زیادہ خوشی نہیں ہو سکتی۔
کیوں نہ ہو گی ؟- اظہار نہیں کرتا کہ آپ کے نزدیک ہماری خوشی کی کیا وقعت؟- آپ کی حوصلہ افزائی سے تو یہاں کی رونق ہے - میں تو اصلاح سخن میں دوبارہ فعال ہی آپ کا ایک جگہ تبصرہ پڑھ کے ہوا ہوں کہ مجھے خوشی ہوتی ہے جب اصلاح سخن میں دوسرے لوگ بھی تبصرہ کرتے ہیں -
 
Top