غزل برائے اصلاح

منذر رضا

محفلین
اساتذہ کرام سے اصلاح کی گزارش ہے

الف عین
محمد وارث
محمد تابش صدیقی
یاسر شاہ
سید عاطف علی
دائم

غمِ ہستی سے مجھ کو میسر یہ ڈھال ہے
دل وجاں میں اے دلبر!ترا ہی خیال ہے
ہوا جو بھی تیرے عشق میں مبتلا اے جاں!
وہ عاشق تو خود بھی اب سراپا جمال ہے
اگر زندگی میں تو نہ ہو تو یہ زندگی
کیا ہے؟بے مزا ہے، بلکہ کہیے وبال ہے
بھلا کون کہتا ہے کہ تو جام بھر کہ دے
فقط تیری اک نظرِ کرم کا سوال ہے
نہیں ظرف ہو گا جامِ دل کا وگرنہ تو
مرا ساقی مجھ کو مے نہ دے، یہ محال ہے
ہمیشہ جو ہوتی ہے تیری یاد میرے ساتھ
مجھے ایک جیسا تیرا ہجر و وصال ہے
کہاں جائے بلبل گلستاں سے یگانہ اب
رگِ گل سے بندھا اس کا ہر ایک بال ہے

شکریہ۔۔۔
 

یاسر شاہ

محفلین
منذر صاحب میں بھی متفق ہوں الف عین صاحب سے یہ کوئی مستعمل بحر نہیں-"فعولن مفاعیلن فعولن مفاعیلن " بحر طویل البتّہ ایک مستعمل بحر ہے مگر عربی میں - ایسے تجربات سے بچیں -
 
ہماری صلاح

@منزر رضا بھائی آپ اس غزل کو بآسانی مندرجہ ذیل بحر میں ڈھال سکتے ہیں

مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن

مثلاً
ہستی کے غم سے مجھ کو میسر یہ ڈھال ہے

یا
ہوتی ہے یوں ہمیشہ تری یاد میرے ساتھ
مجھ پر تو ایک ہی ترا ہجر و وصال ہے
 

منذر رضا

محفلین
محفل کے واجب الاحترام اساتذہ کی خدمت میں
الف عین
محمد وارث
محمد تابش صدیقی
یاسر شاہ
محمد خلیل الرحمٰن

ہستی کے غم سے مجھ کو میسر یہ ڈھال ہے
میرے جی میں تو صرف ترا ہی خیال ہے
گر زندگی میں تو نہ ہو تو پھر یہ زندگی
میرے لیے تو جیسے کہ کوئی وبال ہے
ساقی یہ کون کہتا ہے تو جام بھر کے دے
تجھ سے تو ایک نظرِ کرم کا سوال ہے
اتنا نہ جامِ دل کا ہو گا ظرف ورنہ تو
ساقی مرا، مجھے مے نہ دے، یہ محال ہے
ہوتی ہے یوں ہمیشہ تیری یاد میرے ساتھ
مجھ پر تو ایک ہی ترا ہجر و وصال ہے
سورج ہے استعارہ ترے ہی جلال کا
اور چاند سے عیاں بھی ترا ہی جمال ہے
بلبل کہاں کو جائے چمن سے یگانہ اب
گل کی رگوں سے بندھا ہوا بال بال ہے


شکریہ۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
ہستی کے غم سے مجھ کو میسر یہ ڈھال ہے
میرے جی میں تو صرف ترا ہی خیال ہے
... سمجھ نہیں سکا، دوسرے مصرعے میں "جی میں" صرف "جِمے" تقطیع ہو رہا ہے "جی میں مرے" وزن میں درست آتا ہے اگرچہ م کی تکرار کا عیب بھی پیدا ہو جاتا ہے

گر زندگی میں تو نہ ہو تو پھر یہ زندگی
میرے لیے تو جیسے کہ کوئی وبال ہے
.... "ہو تو" محض "ہتو" تقطیع ہو رہا ہے جب کہ تو، جو وغیرہ کی واؤ کا اسقاط زیادہ فصیح ہے ۔ دوسرے مصرعے میں بھی 'کہ کوئی' میں کاف کی تکرار سے صوتی تنافر پیدا ہوتا ہے

ساقی یہ کون کہتا ہے تو جام بھر کے دے
تجھ سے تو ایک نظرِ کرم کا سوال ہے
... . نظر کی ظ مفتوح ہے ساکن نہیں

اتنا نہ جامِ دل کا ہو گا ظرف ورنہ تو
ساقی مرا، مجھے مے نہ دے، یہ محال ہے
.... ہو گا 'ہُگا' مے نہ دے 'مَنَدے' تقطیع ہونا درست نہیں

ہوتی ہے یوں ہمیشہ تیری یاد میرے ساتھ
مجھ پر تو ایک ہی ترا ہجر و وصال ہے
.... 'تری یاد' کے ساتھ درست

سورج ہے استعارہ ترے ہی جلال کا
اور چاند سے عیاں بھی ترا ہی جمال ہے
.... درست

بلبل کہاں کو جائے چمن سے یگانہ اب
گل کی رگوں سے بندھا ہوا بال بال ہے
بندھا میں نون کا اعلان غلط ہے 'بدا' تقطیع درست ہو گی
 

منذر رضا

محفلین
محترم اساتذہ کی خدمت میں دوبارہ

الف عین
محمد وارث
محمد تابش صدیقی
یاسر شاہ
سید عاطف علی
محمد خلیل الرحمٰن

کیا جانیے کہ دل لگی کا کیا مآل ہے
دل میں مرے تو صرف ترا ہی خیال ہے
اے جانِ جاں!اگر تو نہ ہو زندگی میں تو
عاشق کے واسطے یہ محض اک وبال ہے
ساقی یہ کون کہتا ہے تو جام بھر کے دے
تجھ سے تو صرف ایک نگہ کا سوال ہے
اتنا نہ ظرف ہو گا مرے دل کا ورنہ تو
ساقی شراب مجھ کو نہ دے، یہ محال ہے
ہوتی ہے یوں ہمیشہ تری یاد میرے ساتھ
مجھ پر تو ایک ہی ترا ہجر و وصال ہے
سورج ہے استعارہ ترے ہی جلال کا
اور چاند سے عیاں بھی ترا ہی جمال ہے
بلبل کہاں کو جائے چمن سے یگانہ اب
گل کی رگوں سے اس کا بندھا بال بال ہے

شکریہ
 
آخری تدوین:
Top