غزل برائے اصلاح

انیس جان

محفلین
برسات کے موسم میں توبہ کروں کیا میں
ہرگز نہیں ہرگز نہیں زاہد مری توبہ

پرزے نہیں دیکھے ہیں کیا پہلے خط کے
میں بھیجو دوبارہ تجھے، قاصد مری توبہ

سر سجدے میں ہو اور دل میں یادِ بتاں ہو
سجدوں سے اس طرح کی ساجد مری توبہ

صلواۃ حج اور روزے سے دکھلاوا ہو مقصود
تف ایسی عبادت پہ ہو عابد مری توبہ

الف عین
یاسر شاہ
دائم
 

الف عین

لائبریرین
اس میں دو تین بحروں کا مکسچر لگ رہا ہے مجھے۔ یہ بتاؤ کہ تمہارے حساب سے یہ کیا بحر ہے؟
 

یاسر شاہ

محفلین
برسات کے موسم میں توبہ کروں کیا میں
ہرگز نہیں ہرگز نہیں زاہد مری توبہ


یوں کہیے تو وزن میں بھی ٹھیک ہو جائے گا اور جسارت بھی نہیں :

برسات کا موسم 'مے و پیمانہ ہیں اور ہم
تاخیر ہو توبہ میں تو زاہد مری توبہ

ویسے خیال کی اصلاح یہی ہے کہ توبہ میں تاخیر نہ کی جائے -جبکہ اس قدر حوصلہ افزائی ' آسانی اور رعایت روا رکھی گئی ہے اس باب میں کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے -چنانچہ اس مفہوم کی روایت ہے دن میں ستر مرتبہ توبہ کرنے والا بھی گناہ پہ اصرار کرنے والا نہیں -اور یہ جو شرط بتائی جاتی ہے توبہ کی کہ آئندہ وہ گناہ نہ کرے اس کی اصل بھی فقہاء نے کیا خوب بیان کی ہے کہ کسی گناہ سے توبہ کے وقت بس اس قدر عزم کرے کہ آئندہ فلاں گناہ نہ کرے گا اور یہ اندیشہ کہ آئندہ پھر گناہ نہ ہو جائے عین تواضع اور اپنی بےبسی کا اعتراف ہے-

ایک خدا رسیدہ سے تو یہاں تک سنا اور سمجھا کہ کسی گناہ سے توبہ کرتے وقت دل میں کم از کم اس گناہ کو دوبارہ کرنے کا عزم نہیں 'یہ بھی توبہ ہی ہے - مَثَلاً بدنظری سے توبہ کر رہا ہوں اور دل میں یہ عزم بھی نہیں کہ استغفار و توبہ کر کے پھر اٹھ کے نین مٹکا کروں گا تو اس ارادے کا نہ ہونا بھی نفع سے خالی نہیں -پھر وہ روایت اس مفہوم میں کہ نیکی کا ارادہ بھی بطور نیکی لکھ دیا جاتا ہے اور گناہ کے سرزد ہونے کے بعد کثیر مہلت 'رجوع کے لئے 'دےکر گناہ کی کتابت ہوتی ہے -یہ سب قرائن ہیں اس بات کے کہ توبہ میں تاخیر بدبختی ہے -

باقی اس قبیل کے خیالات سب باطل ہیں -

شب کو مے خوب سی پی صبح کو توبہ کر لی
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی

عمر اپنی تو کٹی عشق بتاں میں مومن
آخری عمر میں کیا خاک مسلمان ہونگے

کعبہ کس منھ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتا

یہ شیطان نے شعرا کے ذریعے امّت کو مایوس کیا ہے -دیکھئے مولانا روم کیا فرماتے ہیں :

سوئے تاریکی مرو خورشید ہاست
سوئے نومیدی مرو امید ہاست


تاریکی کی طرف مت جاؤ کئی سورج ہیں -مایوسی کی طرف مت جاؤ کئی امیدیں ہیں -

آخر میں اس باب میں مجذوب علیھم الرحمہ کا ایک شعر کیا غضب کا ہے ' جو وعظ کا وعظ ہے اور شعر کا شعر :

توبہ تو بار بار کی -بات تھی اختیار کی
توبہ مگر بہار کی ہائے کبھی نبھی نہیں
 

یاسر شاہ

محفلین
ر سجدے میں ہو اور دل میں یادِ بتاں ہو
سجدوں سے اس طرح کی ساجد مری توبہ

یہ پورا شعر ہی ساقط الوزن ہے -کچھ شدبد پیدا کرو علم عروض میں -

وزن میں یوں ڈھل تو جائے گا مگر مجھے اس خیال سے بھی اختلاف ہے :

سر سجدے میں ہو یاد بتاں سے بھرا ہو دل
اس طور کے سجدوں سے تو ساجد مری توبہ

ویسے "سر سجدے میں ہو "سے مجھے وہ مثال یاد آئی جو ہمارے ہاں رائج ہے -ایک صاحب نے وہ مثل مجھ پہ بھی چسپاں کی تھی -جس کا میں نے انھیں ترکی بہ ترکی جواب بھی دیا تھا اور بعد میں قطعہ بھی کہہ دیا تھا -قطعہ اگرچہ خام ہے مگر اس خیال کی اصلاح کے لئے موثرہے ان شاء اللہ -

مجھ سے کہنے لگا ماہر جو سخن سازی میں ہے
سر ترا سجدے میں ہےپشت دغابازی میں ہے
بولا میں کچھ تو ہے سجدے میں مرا 'آپ کا تو
سر دغابازی میں ہے ' پشت دغابازی میں ہے

محفل کی رعایت سے "پشت" لکھا ہے -
 

یاسر شاہ

محفلین
صلواۃ حج اور روزے سے دکھلاوا ہو مقصود
تف ایسی عبادت پہ ہو عابد مری توبہ

صلواۃ حج اور روزے سے دکھلاوا ہو مقصود
تف ایسی عبادت پہ ہو عابد مری توبہ


شعر بےوزن ہے -خیال بھی نادرست -

دیکھئے مجذوب علیه الرحمہ کیا فرماتے ہیں :

وہ ریا جس پر تھے زاہد طعنہ زن
پہلے عادت پھر عبادت ہو گئی

یعنی عمل میں لگے رہنے سے ابتداء کی ریا رفتہ رفتہ عادت ہو گی اور پھر گاہے بگاہے صحیح معنوں میں عبادت -بس آدمی کو چاہئے کہ دھن میں لگا رہے -

فقہاء کا ایک اصول بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جس خیر کا کل نہ حاصل ہوسکتا ہو اس کا جزو بھی ہاتھ سے گنوانا نہ چاہئے -
 

انیس جان

محفلین
اس میں دو تین بحروں کا مکسچر لگ رہا ہے مجھے۔ یہ بتاؤ کہ تمہارے حساب سے یہ کیا بحر ہے؟
بلکل بجا فرمایا استاد صاحب یہ بحرِ ہزج ہے
یہ بحر ہوگئی بحرِ رمل ہو گئی ان میں جب بھی غزل کہتا ہوں تو یہ مسلئہ بن جاتا ہے
 
Top