برسات کے موسم میں توبہ کروں کیا میں
ہرگز نہیں ہرگز نہیں زاہد مری توبہ
یوں کہیے تو وزن میں بھی ٹھیک ہو جائے گا اور جسارت بھی نہیں :
برسات کا موسم 'مے و پیمانہ ہیں اور ہم
تاخیر ہو توبہ میں تو زاہد مری توبہ
ویسے خیال کی اصلاح یہی ہے کہ توبہ میں تاخیر نہ کی جائے -جبکہ اس قدر حوصلہ افزائی ' آسانی اور رعایت روا رکھی گئی ہے اس باب میں کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے -چنانچہ اس مفہوم کی روایت ہے دن میں ستر مرتبہ توبہ کرنے والا بھی گناہ پہ اصرار کرنے والا نہیں -اور یہ جو شرط بتائی جاتی ہے توبہ کی کہ آئندہ وہ گناہ نہ کرے اس کی اصل بھی فقہاء نے کیا خوب بیان کی ہے کہ کسی گناہ سے توبہ کے وقت بس اس قدر عزم کرے کہ آئندہ فلاں گناہ نہ کرے گا اور یہ اندیشہ کہ آئندہ پھر گناہ نہ ہو جائے عین تواضع اور اپنی بےبسی کا اعتراف ہے-
ایک خدا رسیدہ سے تو یہاں تک سنا اور سمجھا کہ کسی گناہ سے توبہ کرتے وقت دل میں کم از کم اس گناہ کو دوبارہ کرنے کا عزم نہیں 'یہ بھی توبہ ہی ہے - مَثَلاً بدنظری سے توبہ کر رہا ہوں اور دل میں یہ عزم بھی نہیں کہ استغفار و توبہ کر کے پھر اٹھ کے نین مٹکا کروں گا تو اس ارادے کا نہ ہونا بھی نفع سے خالی نہیں -پھر وہ روایت اس مفہوم میں کہ نیکی کا ارادہ بھی بطور نیکی لکھ دیا جاتا ہے اور گناہ کے سرزد ہونے کے بعد کثیر مہلت 'رجوع کے لئے 'دےکر گناہ کی کتابت ہوتی ہے -یہ سب قرائن ہیں اس بات کے کہ توبہ میں تاخیر بدبختی ہے -
باقی اس قبیل کے خیالات سب باطل ہیں -
شب کو مے خوب سی پی صبح کو توبہ کر لی
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
عمر اپنی تو کٹی عشق بتاں میں مومن
آخری عمر میں کیا خاک مسلمان ہونگے
کعبہ کس منھ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتا
یہ شیطان نے شعرا کے ذریعے امّت کو مایوس کیا ہے -دیکھئے مولانا روم کیا فرماتے ہیں :
سوئے تاریکی مرو خورشید ہاست
سوئے نومیدی مرو امید ہاست
تاریکی کی طرف مت جاؤ کئی سورج ہیں -مایوسی کی طرف مت جاؤ کئی امیدیں ہیں -
آخر میں اس باب میں مجذوب علیھم الرحمہ کا ایک شعر کیا غضب کا ہے ' جو وعظ کا وعظ ہے اور شعر کا شعر :
توبہ تو بار بار کی -بات تھی اختیار کی
توبہ مگر بہار کی ہائے کبھی نبھی نہیں