غزل برائے اصلاح

لوحِ دِل

محفلین
اسلام و علیکم
تمام احباب کیلیے خیروعافیت کی دعا
میرا پہلا مراسلہ ہے اس محفل میں
تنقید برائے اصلاح کی گزارش ہے

پرندے چہچہائے رنگِ فضا بدل گیا
"وہ مسکرایا اور میری دنیا بدل گیا"

نئی محبتوں نے کیا کیا گل کھلائے
پرانی محبتوں کا وہ ذائقہ بدل گیا

کواڑوں سے جھانکتا نہیں اب کوئی
شاید اُن آنکھوں کا تقاضہ بدل گیا

پہلے پہل پھرتا رہا اضطراب میں
آخر آخر وہ شخص لہجہ بدل گیا

قرب میں نکل آئی رت جدائی کی
شریر کوئی ترا میرا زائچہ بدل گیا

سوگ مناو کہ تماشائی نہیں رہے
بین کرو کہ سارا تماشا بدل گیا

غزل سراوں سے فرخ کیا غلط ہوا
شہرِ سخن کا یکسر نقشہ بدل گیا
 

منذر رضا

محفلین
مطلع میں ایسے آنا چاہیے
فضا بدل گئی
دنیا بدل گئی
دنیا اور فضا مونث ہے
انیس جان صاحب۔۔
رنگِ فضا استعمال کیا ہے۔۔۔۔اس لیے مذکر ہو سکتا ہے۔۔۔۔دنیا والی بات بھی یونہی ٹھیک ہے۔۔۔اس لیے کے دنیا کی تانیث اپنی جگہ مگر «گیا» کا تعلق <وہ> سے ہے۔۔۔۔
 

منذر رضا

محفلین
مجھے تو صرف آخری مصرعہ بحرِ مضارع میں ڈھلا معلوم ہوتا ہے

شہرِ سخن کا یکسر نقشہ بدل گیا ۔۔ مفعول فاعلاتن مفعول فاعلن

بحر میں یوں ڈھال سکتے ہیں مطلع کا دوسرا مصرعہ:
وہ مسکرا کے میری دنیا بدل گیا

پہلے مصرعہ کے لیے فضا بطورِ قافیہ استعمال نہیں ہو سکتا۔۔۔کوئی اور قافیہ سوچیں ۔۔۔میرے ذہن میں نہیں ۔۔۔۔لیکن شتر گربہ ہے اس مطلع میں۔۔۔

اب جھانکتا نہیں ہے وہ کھڑکیوں سے بھی
کس کی نظر لگی اس جیسا بدل گیا

بس فقط ایک شعر موزوں کیا میں نے۔۔۔۔یہ اصلاح۔نہیں۔۔۔۔میں خود طالبعلم ہوں تاہم آپ مذکورہ بحر میں خیالات ڈھالنے کی کوشش کریں۔۔۔
آئیے مل کر الف عین صاحب اور یاسر شاہ صاحب کا انتظار کرتے ہیں۔۔۔
شکریہ!
 

انیس جان

محفلین
انیس جان صاحب۔۔
رنگِ فضا استعمال کیا ہے۔۔۔۔اس لیے مذکر ہو سکتا ہے۔۔۔۔دنیا والی بات بھی یونہی ٹھیک ہے۔۔۔اس لیے کے دنیا کی تانیث اپنی جگہ مگر «گیا» کا تعلق <وہ> سے ہے۔۔۔۔
ٹھیک ہے میں سمجھ گیا تھا خذف کرنا چاہتا تھا
لیکن فورم پہ مراسلہ خذف کرنے کا آپشن ہی نہیں
 

الف عین

لائبریرین
واوین میں جو مصرع دیا گیا ہے بس وہی مستعمل بحر میں ہے۔ اس میں بھی 'مرا' کی ضرورت ہے
یہ مصرع طرحی لگتا ہے اس لیے بحر بھی اسی کو رکھ کر دیکھنا ہو گا
اس لحاظ سے صرف لہجہ اور تماشا درست قوافی ہیں باقی تو اس بحر میں آتے ہی نہیں
لوح صاحب کو عروض سیکھنے کی ضرورت ہے
 

لوحِ دِل

محفلین
واوین میں جو مصرع دیا گیا ہے بس وہی مستعمل بحر میں ہے۔ اس میں بھی 'مرا' کی ضرورت ہے
یہ مصرع طرحی لگتا ہے اس لیے بحر بھی اسی کو رکھ کر دیکھنا ہو گا
اس لحاظ سے صرف لہجہ اور تماشا درست قوافی ہیں باقی تو اس بحر میں آتے ہی نہیں
لوح صاحب کو عروض سیکھنے کی ضرورت ہے
آپ نے بلکل صحیح کہا ، عروض سے مکمل طور پر نا واقف ہوں
 

لوحِ دِل

محفلین
مجھے تو صرف آخری مصرعہ بحرِ مضارع میں ڈھلا معلوم ہوتا ہے

شہرِ سخن کا یکسر نقشہ بدل گیا ۔۔ مفعول فاعلاتن مفعول فاعلن

بحر میں یوں ڈھال سکتے ہیں مطلع کا دوسرا مصرعہ:
وہ مسکرا کے میری دنیا بدل گیا

پہلے مصرعہ کے لیے فضا بطورِ قافیہ استعمال نہیں ہو سکتا۔۔۔کوئی اور قافیہ سوچیں ۔۔۔میرے ذہن میں نہیں ۔۔۔۔لیکن شتر گربہ ہے اس مطلع میں۔۔۔

اب جھانکتا نہیں ہے وہ کھڑکیوں سے بھی
کس کی نظر لگی اس جیسا بدل گیا

بس فقط ایک شعر موزوں کیا میں نے۔۔۔۔یہ اصلاح۔نہیں۔۔۔۔میں خود طالبعلم ہوں تاہم آپ مذکورہ بحر میں خیالات ڈھالنے کی کوشش کریں۔۔۔
آئیے مل کر الف عین صاحب اور یاسر شاہ صاحب کا انتظار کرتے ہیں۔۔۔
شکریہ!
منذر رضا بھائی مجھے بحور کے بارے کوئی علم نہیں
آپ مدد کریں سیکھنے میں
 

فلسفی

محفلین
آپ مدد کریں سیکھنے میں
بھائی میری نظر میں محترم محمد اسامہ سرسری صاحب کی " آؤ شاعری سیکھیں" والی کتاب مختصر وقت میں بنیادی معلومات حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ یہ کتابی شکل میں بھی دستیاب ہے۔ ویسے آپ قسط وار مضامین یہاں سے پڑھ سکتے ہیں۔
 
Top