غزل برائے اصلاح

انیس جان

محفلین
میں اہلِ حسن سے وفا چاہتا ہوں
"مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں"

لگا کر میں دل مہ جبینوں سے لوگو
خوشی چاہتا ہوں بھلا چاہتا ہوں

تمہاری محبت کا ہے معجزہ یہ
میں غم کو خوشی سے سوا چاہتا ہوں

محبت. محبت. محبت. محبت
محبت کا نغمہ سنا چاہتا ہوں

جدائی کے غم سے میں پاگل دیوانہ
ہوا چاہتا ہوں. ہوا چاہتا ہوں

صبا جس کی آکر بلائیں ہو لیتی
میں اس رخ پہ صدقے ہوا چاہتا ہوں

بہت تشنہ لب ہوں مگر پھر بھی ساقی
نہیں جام پورا ذرا چاہتا ہوں

رکھو تم قدم میرے دل او جگر پر
میں راہوں میں تیری بچھا چاہتا ہوں

نہ دوزخ سے ترساں نہ جنّت کا خواہاں
تجھے ہی میں بس دیکھنا چاہتا ہوں

انیس اس نے وعدہ وصل کا کیا ہے
خوشی سے میں پاگل ہوا چاہتا ہوں

الف عین
دائم
یاسر شاہ
 

الف عین

لائبریرین
میں اہلِ حسن سے وفا چاہتا ہوں
"مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں"
.. دائم کہہ ہی چکے ہیں

لگا کر میں دل مہ جبینوں سے لوگو
خوشی چاہتا ہوں بھلا چاہتا ہوں
.. کس کا بھلا؟ یہ واضح نہیں

تمہاری محبت کا ہے معجزہ یہ
میں غم کو خوشی سے سوا چاہتا ہوں
... واہ

محبت. محبت. محبت. محبت
محبت کا نغمہ سنا چاہتا ہوں
... درست

جدائی کے غم سے میں پاگل دیوانہ
ہوا چاہتا ہوں. ہوا چاہتا ہوں
... دیوانہ کو 'دوانہ' ہی لکھا

صبا جس کی آکر بلائیں ہو لیتی
میں اس رخ پہ صدقے ہوا چاہتا ہوں
... پہلے مصرع میں الفاظ کی نشست بدل کر مزید رواں کیا جا سکتا ہے جیسے
صبا جس کی لیتی ہو آ کر بلائیں

بہت تشنہ لب ہوں مگر پھر بھی ساقی
نہیں جام پورا ذرا چاہتا ہوں
.... دوسرا مصرع واضح نہیں

رکھو تم قدم میرے دل او جگر پر
میں راہوں میں تیری بچھا چاہتا ہوں
.... شتر گربہ، پہلا مصرع بدلو تو شاید مزید رواں ہو سکے

نہ دوزخ سے ترساں نہ جنّت کا خواہاں
تجھے ہی میں بس دیکھنا چاہتا ہوں
.... درست

انیس اس نے وعدہ وصل کا کیا ہے
خوشی سے میں پاگل ہوا چاہتا ہوں
.... وصل؟ تلفظ غلط باندھا گیا ہے
 

انیس جان

محفلین
الف عین صاحب
درستی کے بعد
حسینوں سے رسمِ وفا کا ہوں خواہاں
"مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں"

تو رکّھے قدم میرے دل او جگر پر
میں راہوں میں تیری بچھا چاہتا ہوں
مقطع
انیس اس نے آنے کا وعدہ کیا ہے
خوشی سے میں پاگل ہوا چاہتا ہوں

مطلع بعد میں
 
Top