غزل برائے اصلاح

tanzeem

محفلین
محترم جناب الف عین صاحب اور دیگر اساتذہ رہنمائی فرمائیں۔۔

غزل برائے اصلاح


ہٹا دو تم ان آنکھوں سے یہ کاجل کا جو پہرا ہے
نہ جانے کب سے اک قطرہ انہیں پلکوں پہ ٹھہرا ہے
کہ جب بھی دیکھتا ہوں ڈوب ہی جاتا ہوں میں ان میں
سمندر تیری آنکھوں کا بہت ہی جاناں گہرا ہے
میں تیری یاد کو کیسے بھلا خود سے الگ کردوں
ہمیشہ سامنے میرے حسیں تیرا ہی چہرا ہے
رکھیں کس سےیہاں کوئی بتادو عدل کی امید
سنے یاں کون اب فریاد کہ جب منصف ہی بہرا ہے
اتر جائے گی ہاتھوں سے یہ مہندی تیرے اے جاناں
نہ اترے گا کبھی دل سے یہ رنگِ عشق گہرا ہے
ہے دنیا کھیل شطرنج کا، سمجھ لے تو اسے تنظیم
بساط زندگی ہے یہ، تو اک ادنیٰ سا مہرا ہے
تنظیم اختر
 

فلسفی

محفلین
الف عین
محترم اساتذہ کے رائے سے قبل کچھ اپنی گذراشات پیش کردیتا ہوں۔
کہ جب بھی دیکھتا ہوں ڈوب ہی جاتا ہوں میں ان میں
سمندر تیری آنکھوں کا بہت ہی جاناں گہرا ہے
پہلے مصرع میں الفاظ کی نشت بدل کر ذرا اس کو رواں کریں۔ مطلب یہ کہ مصرع پوری کوشش کریں کے عام زبان میں بولے جانے والے جملے کے مطابق ہو۔ مثلا ایک متبادل دیکھیے
تصور میں اسے جب دیکھتا ہوں، ڈوب جاتا ہوں
"جاناں" بھرتی کا ہے اور ویسے بھی میرے خیال میں اس کو فعل کے وزن پر باندھنا اچھا نہیں۔ یوں دیکھیے
سمندر تیری آنکھوں کا حقیقت میں جو گہرا ہے

رکھیں کس سےیہاں کوئی بتادو عدل کی امید
سنے یاں کون اب فریاد کہ جب منصف ہی بہرا ہے
الفاظ کی نشست بدل کر رواں کر سکتے ہیں۔ مثلا ایک متبادل دیکھیے
کسی سے عدل کی امید کوئی کس طرح رکھے
سنے گا کون اب فریاد جب منصف ہی بہرا ہے
اتر جائے گی ہاتھوں سے یہ مہندی تیرے اے جاناں
نہ اترے گا کبھی دل سے یہ رنگِ عشق گہرا ہے
اس میں بھی الفاظ کی نشست بدلنے سے مصرع رواں کیا جا سکتا ہے ایک مثال
اتر جائے گا تیرے ہاتھ سے رنگِ حنا لیکن
جو مٹ پائے نہ دل سے وہ وفا کا نقش گہرا ہے
ہے دنیا کھیل شطرنج کا، سمجھ لے تو اسے تنظیم
بساط زندگی ہے یہ، تو اک ادنیٰ سا مہرا ہے
پہلا مصرع بحر سے خارج ہے
یوں کہیے
یہ دنیا کھیل ہے شطرنج کا اس کو سیکھ لے تنظیم
بساطِ زندگی میں تُو فقط ادنی سا مہرا ہے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
فلسفی کی اکثر معروضات سے متفق ہوں

ہٹا دو تم ان آنکھوں سے یہ کاجل کا جو پہرا ہے
نہ جانے کب سے اک قطرہ انہیں پلکوں پہ ٹھہرا ہے
... 'کاجل کا جو پہرا' سے پتہ چلتا ہے کہ کاجل کے بارے میں کچھ کہا جانا ہے لیکن دوسرے مصرعے میں الگ ہی بات ہے، یوں کہہ سکتے ہیں کہ مطلع دو لخت ہے

کہ جب بھی دیکھتا ہوں ڈوب ہی جاتا ہوں میں ان میں
سمندر تیری آنکھوں کا بہت ہی جاناں گہرا ہے
... ایک متبادل فلسفی نے دیا ہے اس کے علاوہ بھی سوچیں

میں تیری یاد کو کیسے بھلا خود سے الگ کردوں
ہمیشہ سامنے میرے حسیں تیرا ہی چہرا ہے
... دوسرے مصرعے میں الفاظ کی نشست اطمینان بخش نہیں 'ترا سندر سا چہرا' ایک متبادل ہو سکتا ہے

رکھیں کس سےیہاں کوئی بتادو عدل کی امید
سنے یاں کون اب فریاد کہ جب منصف ہی بہرا ہے
.... فلسفی سے متفق ہوں ان کی اصلاح قبول کر لیں

اتر جائے گی ہاتھوں سے یہ مہندی تیرے اے جاناں
نہ اترے گا کبھی دل سے یہ رنگِ عشق گہرا ہے
... فلسفی کے 'رنگِ حنا' سے شعر کا سادہ مزاج بدل گیا ہے ۔ بس 'اے جاناں' بھرتی کا ہے صرفِ اس کو بدلنے کی ضرورت ہے
اتر جائے گی ہاتھوں سے ترے مہندی بس اگلے دن
میری طرف سے ایک متبادل

ہے دنیا کھیل شطرنج کا، سمجھ لے تو اسے تنظیم
بساط زندگی ہے یہ، تو اک ادنیٰ سا مہرا ہے
... مہرا قافیہ غلط ہے اس لیے شطرنج کے غلط تلفظ باندھے جانے کی غلطی کو بھی چھوڑ دیتا ہوں
 

tanzeem

محفلین
شکریہ محترم جناب الف عین اور جناب فلسفی صاحب آپ کی قیمتی اصلاح کے لئے آپ حضرات نے جن خامیوں کی نشان دہی کی ہے میں اسے دور کرنے کی کوشش کرتا ہوں . پھر ایک بار دونوں کا بہت بہت شکریہ.
 
Top