شہنواز نور
محفلین
السلام علیکم ۔۔۔ محفلین ایک غزل پیش ہے اساتذہ سے اصلاح کی گزارش ہے ممنون رہوں گا
جنہیں دل دیے جا رہا ہے صدائیں
بھروسہ نہیں ہے وہ آئیں نہ آئیں
وہ کیا سوچتے ہیں وہ کیا چاپتے ہیں
ہمیں جانتے ہیں تمہیں کیوں بتائیں
ملاقات کی ضد کریں ۔ جب ملیں تو
وہ شرما کے اپنی ہتھیلی دبائیں
نگاہیں سوالات کرتی ہیں ان کی
مگر بات کرتے ہی لب تھر تھرائیں
نہ اب ہوش باقی نہ قابو میں دل ہے
ہیں مشکل میں دونوں کسے ہم بچائیں
قیامت کہیں ٹوٹ جائے نہ ہم پر
اگر ان کے رخ سے جو پردہ ہٹائیں
ادھر نیند غائب ادھر بے قراری
وہ خود جاگتے ہیں ہمیں بھی جگائیں
خدا کی قسم وہ ہی لطفِ سخن ہے
ہماری غزل ہو تو وہ گنگنائیں
ہو پر نور چہرا چمکتی نگاہیں
وہ جب جب چراغِ محبت جلائیں
جنہیں دل دیے جا رہا ہے صدائیں
بھروسہ نہیں ہے وہ آئیں نہ آئیں
وہ کیا سوچتے ہیں وہ کیا چاپتے ہیں
ہمیں جانتے ہیں تمہیں کیوں بتائیں
ملاقات کی ضد کریں ۔ جب ملیں تو
وہ شرما کے اپنی ہتھیلی دبائیں
نگاہیں سوالات کرتی ہیں ان کی
مگر بات کرتے ہی لب تھر تھرائیں
نہ اب ہوش باقی نہ قابو میں دل ہے
ہیں مشکل میں دونوں کسے ہم بچائیں
قیامت کہیں ٹوٹ جائے نہ ہم پر
اگر ان کے رخ سے جو پردہ ہٹائیں
ادھر نیند غائب ادھر بے قراری
وہ خود جاگتے ہیں ہمیں بھی جگائیں
خدا کی قسم وہ ہی لطفِ سخن ہے
ہماری غزل ہو تو وہ گنگنائیں
ہو پر نور چہرا چمکتی نگاہیں
وہ جب جب چراغِ محبت جلائیں