غزل برائے اصلاح

الف عین
فلسفی خلیل الرحمن ،یاسر شاہ اور دیگر اساتذہ
افاعیل ۔-- مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن
-------------------
دبوچ لے گی موت کب کسی کو کچھ خبر نہیں
سبھی مریں گے وقت پر کسی کو بھی مفر نہیں
------------------
لکھا ہے جو نصیب میں ملے گا وہ جہان میں
وصال ہے نصیب میں ملے گا تب ہجر نہیں
-------------------------
ملنگ ہیں مزار پر کہیں بھی جا کے دیکھ لو
مزار ہے نبی کا بس جہاں اُنہیں گزر نہیں
---------------------
تمہیں ملے جو دکھ کبھی مدد خدا سے مانگ لو
جسے کبھی نہ دکھ ملے جہاں میں وہ بشر نہیں
--------------------
مجھے تو وہ عزیز ہے اگر ترا جو غم ملے
کیا کروں مری طرف تری تو کچھ نظر نہیں
------------------------
فریب ہے جہان کا ہوئے ہیں جس میں غرق سب
پِدر اگر ہے بچ گیا تو پھر بچا پسر نہیں
---------------------
غریب تھا غریب ہوں غریب ہی رہوں گا میں
جو مال ہی نصیب میں لکھا ہوا اگر نہیں
------------------
مجھے کبھی نہ چھوڑنا ہے آسرا مجھے ترا
مجھے تری نہ یاد ہو مری تو وہ سحر نہیں
------------------
گذارشات--- 1--کیا یہ قوافی درست ہیں
2-- اس بحر میں اپنا نام کس طرح استمال کروں۔۔( ارشد ) یعنی ار - شد ہجہ بلند + ہجہ بلند ۔۔مگر اس بحر میں ہجہ بلند دو دفہ اکٹھے کہیں نہیں ۔
 

فلسفی

محفلین
واہ ارشد بھائی قدرے بہتر ہے یہ غزل۔ میرے خیال میں ہجر کے علاوہ باقی قوافی درست ہیں۔ کیونکہ ر سے پہلے والے حرف پر فتحہ ہونا چاہیے ۔

ارشد لفظ اس بحر میں آسکتا ہے ھمزہ وصل کے اصول کے ذریعے یعنی اگر ارشد کے فورا بعد کوئی الف والا لفظ ہو۔ ارشد آج، ارشد اب وغیرہ۔

ہمارا کام بس اتنی گولی دینا ہے۔ باقی مکمل پوسٹ مارٹم بڑے سرجن محترم الف عین صاحب فرمائیں گے۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ بہت بہتر غزل ہے، پہلی بار بھرتی کے الفاظ سے بچنے کی کوشش دیکھی گئی ہے۔
دبوچ لے گی موت کب کسی کو کچھ خبر نہیں
سبھی مریں گے وقت پر کسی کو بھی مفر نہیں
------------------ وقت پر؟ کیا سارے ایک ہی وقت میں مریں گے؟
مریں گے اپنے وقت پر
کیا جا سکتا ہے

لکھا ہے جو نصیب میں ملے گا وہ جہان میں
وصال ہے نصیب میں ملے گا تب ہجر نہیں
------------------------- ہجر کے تلفظ کی بات ہو چکی

ملنگ ہیں مزار پر کہیں بھی جا کے دیکھ لو
مزار ہے نبی کا بس جہاں اُنہیں گزر نہیں
--------------------- انہیں گزر نہیں محاورے کے خلاف ہے 'ان کا گزر نہیں' کا محل ہے

تمہیں ملے جو دکھ کبھی مدد خدا سے مانگ لو
جسے کبھی نہ دکھ ملے جہاں میں وہ بشر نہیں
-------------------- درست

مجھے تو وہ عزیز ہے اگر ترا جو غم ملے
کیا کروں مری طرف تری تو کچھ نظر نہیں
------------------------ اگر اور جو دونوں ایک ساتھ استعمال نہیں کیے جاتے
کیا کروں.. وزن میں نہیں اگر کیا سوالیہ ہے، اگر کرنے کے فعل کا ماضی ہے تو سمجھ میں نہیں آیا

فریب ہے جہان کا ہوئے ہیں جس میں غرق سب
پِدر اگر ہے بچ گیا تو پھر بچا پسر نہیں
--------------------- درست

غریب تھا غریب ہوں غریب ہی رہوں گا میں
جو مال ہی نصیب میں لکھا ہوا اگر نہیں
------------------ درست

مجھے کبھی نہ چھوڑنا ہے آسرا مجھے ترا
مجھے تری نہ یاد ہو مری تو وہ سحر نہیں
--------- یہ دو لخت لگ رہا ہے
 
الف
-----------------
اصلاح کے بعد دوبارا
--------------
دبوچ لے گی موت کب کسی کو کچھ خبر نہیں
مریں گے اپنے وقت پر کسی کو بھی مفر نہیں
------------------
لکھا ہے جو نصیب میں ملے گا وہ جہان میں
ملے گا جب لکھا ہوا مجھے تو کچھ عذر نہیں
یا
ہے سب خدا کے ہاتھ میں مجھے ذرا عذر نہیں
-----------------
ملنگ ہیں مزار پر کہیں بھی جا کے دیکھ لو
مرے نبی کی قبر ہے جہاں کبھی یہ شر نہیں
--------------------
تمہیں ملے جو دکھ کبھی مدد خدا سے مانگ لو
جسے کبھی نہ دکھ ملے جہاں میں وہ بشر نہیں
--------------------
مجھے ملے ترا جو غم خوشی سے وہ قبول ہے
مری طرف بتا مجھے کیوں تری نظر نہیں
------------------
فریب ہے جہان کا ہوئے ہیں جس میں غرق سب
پدر اگر ہے بچ گیا تو پھر بچا پسر نہیں
------------------
غریب تھا غریب ہوں غریب ہی رہوں گا میں
جو مال ہی نصیب میں لکھا ہوا اگر نہیں
-------------------
مجھے کبھی نہ چھوڑنا ہے آسرا مجھے ترا
محال ہے یہ زندگی جو ساتھ تُو اگر نہیں
-------------------
 

الف عین

لائبریرین
دبوچ لے گی موت کب کسی کو کچھ خبر نہیں
مریں گے اپنے وقت پر کسی کو بھی مفر نہیں
------------------ درست

لکھا ہے جو نصیب میں ملے گا وہ جہان میں
ملے گا جب لکھا ہوا مجھے تو کچھ عذر نہیں
یا
ہے سب خدا کے ہاتھ میں مجھے ذرا عذر نہیں
----------------- عذر میں بھی ذال پر جزم ہوتا ہے، یہ شعر نکال ہی دیں

ملنگ ہیں مزار پر کہیں بھی جا کے دیکھ لو
مرے نبی کی قبر ہے جہاں کبھی یہ شر نہیں
-------------------- درست

تمہیں ملے جو دکھ کبھی مدد خدا سے مانگ لو
جسے کبھی نہ دکھ ملے جہاں میں وہ بشر نہیں
-------------------- درست

مجھے ملے ترا جو غم خوشی سے وہ قبول ہے
مری طرف بتا مجھے کیوں تری نظر نہیں
------------------ کیوں محض 'کو' تقطیع ہونا چاہیے
الفاظ بدل کر روانی بہتر بنائی جا سکتی ہے
مجھے جو تیرا غم ملے خوشی سے وہ قبول ہے
مجھے بتا مری طرف جو کیوں تری نظر نہیں
(کہ کیوں میں تنافر پیدا ہو جائے گا)

فریب ہے جہان کا ہوئے ہیں جس میں غرق سب
پدر اگر ہے بچ گیا تو پھر بچا پسر نہیں
------------------ درست

غریب تھا غریب ہوں غریب ہی رہوں گا میں
جو مال ہی نصیب میں لکھا ہوا اگر نہیں
------------------- درست

مجھے کبھی نہ چھوڑنا ہے آسرا مجھے ترا
محال ہے یہ زندگی جو ساتھ تُو اگر نہیں
---------------- مجھے ہے تیرا آسرا پہلے مصرع میں بہتر ہو گا اور آخر میں بھی
تو میرے ساتھ اگر نہیں
کر دیں
یہ بات پھر دہرا دوں کہ مبتدیوں کو ہی نہیں، ہر شاعر کو چاہیے کہ الفاظ بدل بدل کر دیکھیں کہ کیا صورت بہترین ہے ۔ اس طرح اپنے اشعار بدلتے رہنا کوئی بری بات نہیں۔ میں خود اس پر عمل کرتا ہوں
 
Top