غزل برائے اصلاح

الف عین
خلیل الر حمن، فلسفی اور دیگر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جام الفت کا جس نے پیا ہی نہیں
وہ تو ایسے ہے جیسے جیا ہی نہیں
---------------
یہ وفا ہے کیا ، اُس کی جانے بلا ( کیا --وٹ)
جس نے وعدہ وفا کا کیا ہی نہیں
---------------
وہ محبّت کو میری نہ سمجھا کبھی
زخم اُس نے دیا جو سِیا ہی نہیں
-------------
یہ محبّت ہمیشہ ہی روشن رہی
جو بُجھا ہو کبھی یہ دیا ہی نہیں
------------
جو محبّت کو بد نام کرتا رہا
کام اچھا تو اُس نے کیا ہی نہیں
-------------------
غم سہوں گا وفا میں ، ہے وعدہ مرا
بے وفائی کا شکوہ کیا ہی نہیں
----------------
غم اُٹھاتا رہا پیار کرتا رہا
بے وفائی کا طعنہ لیا ہی نہیں
---------------
یاد ارشد زمانہ کرے گا تجھے
پیار کو تم نے رُسوا کیا ہی نہیں
----------------
 

الف عین

لائبریرین
'ہی نہیں' ردیف اکثر درست استعمال نہیں ہو سکی.۔
جام الفت کا جس نے پیا ہی نہیں
وہ تو ایسے ہے جیسے جیا ہی نہیں
--------------- واہ، اچھا مطلع ہے

یہ وفا ہے کیا ، اُس کی جانے بلا ( کیا --وٹ)
جس نے وعدہ وفا کا کیا ہی نہیں
--------------- کیا بطود 'ڈن' فعو استعمال ہوا ہے جو غلط ہے
چیز کیا ہے وفا، اس کی..... بہتر ہو گا

وہ محبّت کو میری نہ سمجھا کبھی
زخم اُس نے دیا جو سِیا ہی نہیں
------------- کس کو سینا تھا زخم؟

یہ محبّت ہمیشہ ہی روشن رہی
جو بُجھا ہو کبھی یہ دیا ہی نہیں
------------ ٹھیک ہے

جو محبّت کو بد نام کرتا رہا
کام اچھا تو اُس نے کیا ہی نہیں
-------------------
غم سہوں گا وفا میں ، ہے وعدہ مرا
بے وفائی کا شکوہ کیا ہی نہیں
----------------
غم اُٹھاتا رہا پیار کرتا رہا
بے وفائی کا طعنہ لیا ہی نہیں
---------------
یاد ارشد زمانہ کرے گا تجھے
پیار کو تم نے رُسوا کیا ہی نہیں
----------------
ان چاروں اشعار میں ردیف درست نہیں یا واضح نہیں کہ کس نے کام نہیں کیا۔
 
الف عین
-------------
دوبارا
-------------
جام الفت کا جس نے پیا ہی نہیں
وہ تو ایسے ہے جیسے جیا ہی نہیں
----------------
چیز کیا ہے وفا ،اُس کی جانے بلا
جس نے وعدہ وفا کا کیا ہی نہیں
------------------
وہ محبّت کو میری نہ سمجھا کبھی
اس کے دل میں جو شک تھا گیا ہی نہیں
----------------
یہ محبّت ہمیشہ ہی روشن رہی
جو بُجھا ہو کبھی وہ دیا ہی نہیں
------------
جو محبّت کو بدنام کرتا رہا
پیار اُس نے کسی سے کیا ہی نہیں
-----------------
غم سہوں گا وفا میں ، ہے وعدہ مرا
تم سے شکوہ تو میں نے کیا ہی نہیں
---------------
غم اُٹھاتا رہا پیار کرتا رہا
پیار مجھ سا کسی نے کیا ہی نہیں
----------------
سب سے اچھا کہا ، سب سے اچھا کیا
میں نے دھوکہ کسی کو دیا ہی نہیں
----------------
یاد ارشد زمانہ کرے گا تجھے
تم نے رسوا کسی کو کیا ہی نہیں
--------------
 

الف عین

لائبریرین
باقی تو درست ہو چکے

جو محبّت کو بدنام کرتا رہا
پیار اُس نے کسی سے کیا ہی نہیں
----------------- جو' سے بات کنفیوزنگ ہو جاتی ہے
بس، محبت....

غم سہوں گا وفا میں ، ہے وعدہ مرا
تم سے شکوہ تو میں نے کیا ہی نہیں
--------------- اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی
بہر حال یوں بہتر ہو گا
خامشی سے نبھاتا رہا میں وفا
تم سے.....

غم اُٹھاتا رہا پیار کرتا رہا
پیار مجھ سا کسی نے کیا ہی نہیں
---------------- کون غم اٹھاتا رہا؟ واضح کہیں یا نکال ہی دیں شعر

سب سے اچھا کہا ، سب سے اچھا کیا
میں نے دھوکہ کسی کو دیا ہی نہیں
----------------یعنی دھوکہ دینا تھا؟ یہ شعر بھی واضح نہیں

یاد ارشد زمانہ کرے گا تجھے
تم نے رسوا کسی کو کیا ہی نہیں
-------------- یعنی رسوا کرنا ضروری تھا؟ یہاں بھی 'ہی' کا استعمال غلط ہے
 
آخری پانچ اشعار دوبارا----------الف عین
-------------
بس محبّت کو بدنام کرتا رہا
پیار اس نے کسی سے کیا ہی نہیں
--------------
خامشی سے نبھاتا رہا میں وفا
تم سے شکوہ کبھی بھی کیا ہی نہیں
-----------------
محبّت میں سب اُٹھاتا رہا
پیار مجھ سا کسی نے کیا ہی نہیں
---------------
سب نے اچھا کہا ، سب سے الفت ملی
دکھ کسی کو کبھی بھی دیا ہی نہیں
---------------------
تجھ کو ارشد سبھی سے الفت ملی
شکر ان کا ادا کیوں کیا ہی نہیں
---------------------
 

الف عین

لائبریرین
بس محبّت کو بدنام کرتا رہا
پیار اس نے کسی سے کیا ہی نہیں
-------------- میرا ہی مشورہ تھا یہ تو

خامشی سے نبھاتا رہا میں وفا
تم سے شکوہ کبھی بھی کیا ہی نہیں
----------------- دوسرا مصرع بدلنے کی ضرورت نہیں تھی، وہی بہتر اور رواں تھا۔ اس میں تو 'بھی' بھرتی کا ہے

محبّت میں سب اُٹھاتا رہا
پیار مجھ سا کسی نے کیا ہی نہیں
--------------- پہلا مصرع مکمل نہیں

سب نے اچھا کہا ، سب سے الفت ملی
دکھ کسی کو کبھی بھی دیا ہی نہیں
--------------------- اوپر والا شعر نکال دیں، نیچے والا اسی مفہوم کا بہتر ہے

تجھ کو ارشد سبھی سے الفت ملی
شکر ان کا ادا کیوں کیا ہی نہیں
-------------------- الفت سے بحر میں کس طرح آ سکتا ہے؟ محبت آنا چاہیے
تجھ کو ارشد سبھی سے محبت ملی
 
Top