غزل برائے اصلاح

الف عین
خلیل الرحمن ،فلسفی۔تابش صدیقی و دیگر
------------------
افاعیل--مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن
--------------
دل سے وفا کسی کی بُھلانا نہ چاہئے
کرتے ہو پیار تو وہ چُھپانا نہ چاہئے
------------------
سب ہی چراغ پیار کے جلتے رہیں سدا
اُن کو کسی بھی طور بُجھانا نہ چاہئے
------------------
محبوب کا جو پیار ہے دنیا سے ہو جُدا
اوروں کے ساتھ اُس کو ملانا نہ چاہئے
-------------------
تم نفرتوں کی آگ بُجھاتے رہو سدا
جو پیار کی ہو آگ بُجھانا نہ چاہئے
----------------
تجھ کو کسی سے پیار ہو دل میں رہے ترے
اپنا کسی کو راز بتانا نہ چاہئے
-------------------
کرتا ہوں ہر کسی سے الفت کی بات ہی
مجھ سے کسی کو دور تو جانا نہ چاہئے
------------------
کوئی اگر غریب ہے تو وہ کیا کرے
دل ہے غریب کا بھی دُکھانا نہ چاہئے
--------------------
دل میں خدا کو یاد بھی کرتے رہو سدا
دل سے خدا کی یاد بُھلانا نہ چاہئے
-----------------
نازک بہت ہیں یار دلوں کے یہ سلسلے
دنیا میں کسی کا دل جلانا نہ چاہئے
-----------
مانگے خدا کے نام پہ دے دو فقیر کو
ایسے اُسے تو چھوڑ کے جانا نہ چاہئے
-------------------
انسان کا جو دل ہے وہ نازک سی چیز ہے
تم کو کسی کا دل دکھانا نہ چاہئے
------------------
ارشد کے پیار کو دل سے نہ بھولنا
سچا کسی کا پیار بھلانا نہ چاہئے
-----------------------
 

الف عین

لائبریرین
کئی مصرعے وزن میں نہیں۔ تو، ہی، سدا جو بھرتی کے الفاظ ہیں ان سے بچنے کی کوشش کریں
اس غزل کو خود ایک بار پھر سے دیکھیں
 
الف عین
----------
دوبارا
------------------
دل سے کسی کا پیار بھلانا نہ چاہئے
تم کو اگر ہے پیار چھپانا نہ چاہئے
-----------
الفت کے سب چراغ ہی جلتے رہیں یہاں
ان کو کسی بھی طور بُجھانا نہ چاہئے
---------------
محبوب کا جو پیار ہے دنیا سے ہو جدا
اوروں کے ساتھ اس کو ملانا نہ چاہئے
--------------------
تم نفرتوں کی آگ بُجھاتے رہو یہاں
ایسی کہیں بھی آگ جلانا نہ چاہئے
-----------------
تجھ کو کسی سے پیار ہو دل میں رہے ترے
اپنا کسی کو راز بتانا نہ چاہئے
-----------------
تم الفتوں کی بات ہی کرتے رہو یہاں
تم سے کسی کو دور جانا نہ چاہئے
-------------------
کوئی اگر غریب ہے تو وہ کیا کرے
دل تو غریب کا بھی دکھانا نہ چاہئے
----------------
کرتے رہو خدا کو ہمیشہ ہی یاد تم
اس کو کسی بھی طور بھلانا نہ چاہئے
--------------
معاملے یہ دل کے بہت ہی عجیب ہیں
ایسے کسی کا دل تو جلانا نہ چاہئے
------------------
مانگے خدا کے نام پہ دے دو فقیر کو
در سے کبھی بھی اس کو اُٹھانا نہ چاہئے
--------------
انسان کا جو دل ہے وہ نازک سی چیز ہے
لوگوں کا دل کبھی بھی دکھانا نہ چاہئے
----------
ارشد کسی کا پیار کبھی بھولتا نہیں
سچا کسی کا پیار ، بھلانا نہ چاہئے
--------------------
 

منذر رضا

محفلین
ارشد چوہدری
حضور نہایت ادب سے عرض کروں۔۔۔۔غزل میں ایک ہی بات کی تکرار معلوم ہوتی ہے اور کلام پر آورد کا گماں گزرتا ہے۔۔۔۔۔۔
حقیر کی گستاخی معاف کر دیجیے گا۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
ارشد چوہدری
حضور نہایت ادب سے عرض کروں۔۔۔۔غزل میں ایک ہی بات کی تکرار معلوم ہوتی ہے اور کلام پر آورد کا گماں گزرتا ہے۔۔۔۔۔۔
حقیر کی گستاخی معاف کر دیجیے گا۔۔۔
یہی بات میں اکثر کہتا ہوں کہ عروض اور روانی کے لحاظ سے درست اشعار ہو جانے پر بھی زیادہ تر محض تک بندی محسوس ہوتی ہے۔ کوئی تخیل کی پرواز محسوس نہیں ہوتی
 

الف عین

لائبریرین
پہلے سے کچھ ہی بہتر ہے۔
دل سے کسی کا پیار بھلانا نہ چاہئے
تم کو اگر ہے پیار چھپانا نہ چاہئے
----------- وزن درست، لیکن دونوں مصرعوں میں ربط کی کمی ہے

الفت کے سب چراغ ہی جلتے رہیں یہاں
ان کو کسی بھی طور بُجھانا نہ چاہئے
--------------- ہی. پھر بھرتی کا ہے، پچھلا مصرع یہ تھا
سب ہی چراغ پیار کے جلتے رہیں سدا
اسی کو 'ہی' نکال کر کہیں
سارے چراغ پیار کے جلتے رہیں سدا/یہاں
اب آپ خود ہی غور کریں کہ کیا صورت بہتر ہے۔ پہلے ہی رویژن کے بعد پھر پوسٹ کرنے سے بہتر تھا کہ آپ خود اس پر کچھ اور وقت گزارتے

محبوب کا جو پیار ہے دنیا سے ہو جدا
اوروں کے ساتھ اس کو ملانا نہ چاہئے
-------------------- مفہوم نہیں سمجھ سکا

تم نفرتوں کی آگ بُجھاتے رہو یہاں
ایسی کہیں بھی آگ جلانا نہ چاہئے
----------------- کیسی آگ؟ جب بجھانے کا کام ہی کرنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے تو یہ understood نہیں کہ وہ شخص آگ بھی لگائے گا

تجھ کو کسی سے پیار ہو دل میں رہے ترے
اپنا کسی کو راز بتانا نہ چاہئے
----------------- 'تجھ کو' بھی ضروری نہیں، اس کی بجائے بات واضح کی جا سکتی ہے، جیسے
گر/جو پیار ہو کسی سے، تو دل میں رہے ترے

تم الفتوں کی بات ہی کرتے رہو یہاں
تم سے کسی کو دور جانا نہ چاہئے
------------------- دوسرا مصرع بحر سے خارج، ربط بھی نہیں

کوئی اگر غریب ہے تو وہ کیا کرے
دل تو غریب کا بھی دکھانا نہ چاہئے
---------------- پہلا مصرع خارج، دونوں جگہ غریب لفظ کا استعمال بھی اچھا نہیں

کرتے رہو خدا کو ہمیشہ ہی یاد تم
اس کو کسی بھی طور بھلانا نہ چاہئے
-------------- 'ہمیشہ ہی' اچھا نہیں
ہر حال میں ہی/بھی کرتے رہو تم خدا کو یاد

معاملے یہ دل کے بہت ہی عجیب ہیں
ایسے کسی کا دل تو جلانا نہ چاہئے
------------------ پہلا مصرع وزن میں نہیں، دو لخت

مانگے خدا کے نام پہ دے دو فقیر کو
در سے کبھی بھی اس کو اُٹھانا نہ چاہئے
-------------- ٹھیک ہے

انسان کا جو دل ہے وہ نازک سی چیز ہے
لوگوں کا دل کبھی بھی دکھانا نہ چاہئے
---------- دونوں مصرعوں میں 'دل' اچھا نہیں

ارشد کسی کا پیار کبھی بھولتا نہیں
سچا کسی کا پیار ، بھلانا نہ چاہئے
------------------- یہ بھی دو لخت
 
ارشد چوہدری
حضور نہایت ادب سے عرض کروں۔۔۔۔غزل میں ایک ہی بات کی تکرار معلوم ہوتی ہے اور کلام پر آورد کا گماں گزرتا ہے۔۔۔۔۔۔
حقیر کی گستاخی معاف کر دیجیے گا۔۔۔
چھوٹے بھائی مشورے کا بہت بہت شکریہ ۔ آپ نے جو محسوس کیا اظہار کر دیا ۔ کمی دور کرنے کی کوشش کروں گا اس طرح بہتری آتی ۔ بِلا جھجھک اظہارِ خیال فرماتے رہئے ۔تنقید میں اصلاح ہو تو غصّہ کر کے انسان اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ اور میرا ایسا ارادہ بالکل نہیں ۔آپ کی باتیں اچھی لگیں ۔ دوبارا شکریہ
 
Top