سعید احمد سجاد
محفلین
سمیٹ کر خواہشیں مَیں بیٹھا تھا اک مجسّم سوال بن کر۔
کہ تن بدن میں اتر گیا پھر سے اُن کا لہجہ ملال بن کر۔
ہزار کوشش اُنھیں بھُلانے کی روز کرتا ہوں تیرگی میں۔
مگر وہ پھر بھی مجھے ستاتےہیں خواب بن کر خیال بن کر۔
یہ رات کی بات ہے انھیں بےنقاب دیکھا کھلی فضا میں۔
پڑی جو گالوں پہ اُن کے شبنم تو پھر وہ نکھرے ہلال بن کر۔
گزر گئے دن عنایتوں کے رتیں ملن کی تمام ٹھہریں۔
جدائیاں پھر سے لوٹ آئیں غریبِ جاں پر زوال بن کر۔
سنور کے آئے وہ سامنے جب سرک گئی اوڑھنی بھی سر سے۔
پھنسا لیا پھر سیاہ زلفوں نے مجھکو سجاد جال بن کر۔
کہ تن بدن میں اتر گیا پھر سے اُن کا لہجہ ملال بن کر۔
ہزار کوشش اُنھیں بھُلانے کی روز کرتا ہوں تیرگی میں۔
مگر وہ پھر بھی مجھے ستاتےہیں خواب بن کر خیال بن کر۔
یہ رات کی بات ہے انھیں بےنقاب دیکھا کھلی فضا میں۔
پڑی جو گالوں پہ اُن کے شبنم تو پھر وہ نکھرے ہلال بن کر۔
گزر گئے دن عنایتوں کے رتیں ملن کی تمام ٹھہریں۔
جدائیاں پھر سے لوٹ آئیں غریبِ جاں پر زوال بن کر۔
سنور کے آئے وہ سامنے جب سرک گئی اوڑھنی بھی سر سے۔
پھنسا لیا پھر سیاہ زلفوں نے مجھکو سجاد جال بن کر۔