غزل برائے اصلاح

الف عین
فلسفی ، خلیل الر حمن
----------------
افاعیل --مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن
-----------------------
تری ہی یادیں ہیں دل میں میرے ، بُھلا نہ پایا کبھی بھی تم کو
مقام تیرا کیا ہے دل میں ، دکھا نہ پایا کبھی بھی تم کو
------------------------
کبھی نہ ایسا تو سوچنا بھی ، وفا پہ تیری میں شک کروں گا
نہیں ہے کوئی بھی تجھ سے بڑھ کر، بتا نہ پایا کبھی بھی تم کو
--------------------
جہان سارا کہے اگر تو ، نہ دل سے تجھ کو بُھلا سکوں گا
ترے لئے جو جگہ ہے دل میں ، دکھا نہ پایا کبھی بھی تم کو
-------------------
ترے لئے ہے جو پیار دل میں ، کسی نے ایسا کیا نہ ہو گا
جو دل سے آواز آ رہی ہے ، سُنا نہ پایا کبھی بھی تم کو
-------------------------
کسی سے دل کی نہ بات کہنا ،مجھے بتانا یا دل میں رکھنا
سبھی تو ہوتے نہیں ہیں مخلص ، بتا نہ پایا کبھی بھی تم کو
---------------------------
حسد میں جلتے ہیں لوگ اکثر ، نہ پیار کرتا وہ دیکھ پائیں
یہ بُغض رکھتے ہیں دل میں اپنے ، بتا نہ پایا کبھی بھی تم کو
---------------------
ترے سوا تو نہیں ہے کوئی ، جو دل میں ارشد کے رہ سکا ہو
کبھی ملو تو دل دِکھا دوں ، دکھا نہ پایا کبھی بھی تم کو
---------------------
 
الف عین
فلسفی ، خلیل الر حمن
----------------
افاعیل --مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن
-----------------------
تری ہی یادیں ہیں دل میں میرے ، بُھلا نہ پایا کبھی بھی تم کو
مقام تیرا کیا ہے دل میں ، دکھا نہ پایا کبھی بھی تم کو
------------------------
کبھی نہ ایسا تو سوچنا بھی ، وفا پہ تیری میں شک کروں گا
نہیں ہے کوئی بھی تجھ سے بڑھ کر، بتا نہ پایا کبھی بھی تم کو
--------------------
جہان سارا کہے اگر تو ، نہ دل سے تجھ کو بُھلا سکوں گا
ترے لئے جو جگہ ہے دل میں ، دکھا نہ پایا کبھی بھی تم کو
-------------------
ترے لئے ہے جو پیار دل میں ، کسی نے ایسا کیا نہ ہو گا
جو دل سے آواز آ رہی ہے ، سُنا نہ پایا کبھی بھی تم کو
-------------------------
کسی سے دل کی نہ بات کہنا ،مجھے بتانا یا دل میں رکھنا
سبھی تو ہوتے نہیں ہیں مخلص ، بتا نہ پایا کبھی بھی تم کو
---------------------------
حسد میں جلتے ہیں لوگ اکثر ، نہ پیار کرتا وہ دیکھ پائیں
یہ بُغض رکھتے ہیں دل میں اپنے ، بتا نہ پایا کبھی بھی تم کو
---------------------
ترے سوا تو نہیں ہے کوئی ، جو دل میں ارشد کے رہ سکا ہو
کبھی ملو تو دل دِکھا دوں ، دکھا نہ پایا کبھی بھی تم کو
---------------------
ارشد چوہدری بھائی اس غزل کے تقریباً ہر شعر میں شتر گُربہ ہے ، چیک کرلیجیے۔ جب ردیف ہی 'کبھی بھی تُم کو' ہے تو آپ اشعار میں' تو ' کیونکر استعمال کرسکتے ہیں۔
 
خلیل الر حمن بھائی ۔۔ بہت بہت شکریہ اس طرف توجہ نہیں گئی ۔ کل اس کی ترتیب بدل کر دوبارا لکھوں ۔ اس وقت رات کے بارہ بجنے والے ہیں۔ ابھی نہ سویا تو بیگم سے مار پڑے گی۔
 

محمد فہد

محفلین
جہان سارا کہے اگر تو ، نہ دل سے تجھ کو بُھلا سکوں گا
ترے لئے جو جگہ ہے دل میں ، دکھا نہ پایا کبھی بھی تم کو
-------------------
ترے لئے ہے جو پیار دل میں ، کسی نے ایسا کیا نہ ہو گا
جو دل سے آواز آ رہی ہے ، سُنا نہ پایا کبھی بھی تم کو

ارشد بھائی، بہت خوبصورت غزل لکھتے ہیں ہنر فکر و بلند نظر قلم کی بزم سدا سجی ہوئی ہے
ایسا لفظ ہنر روشنی سے کشیدکرنے والوں کو ہی میسر ہوتے ہیں ۔
اللہ سوہنا، آپ کو سدا سلامت اور خوش ہر دکھ سے دور رکھے ترقیاں کامیابیاں اور ہر نعمت سے نوازیں آمین یارب
 
خلیل بھائی نئی ترتیب شائد بہتر لگے
الف عین
----------------------
تری ہی یادیں ہیں دل میں میرے ،کبھی بھی جن کو بُھلا نہ پایا
مقام تیرا جو دل میں ہے وہ ، تجھے کبھی میں دکھا نہ پایا ( مقام تیرا کیا ہے دل میں کبھی بھی وہ میں دکھا نہ پایا )
-------------------------
کبھی نہ ایسا تو سوچنا بھی ،وفا پہ تیری میں شک کروں گا
نہیں ہے کوئی سوا تمہارے ،کبھی یہ باتیں بتا نہ پایا
---------------------
جہان سارا کہے اگر تو ، نہ دل سے تجھ کو بُھلا سکوں گا
ترے لئے جو جگہ ہے دل میں ،کبھی تجھے میں دکھا نہ پایا
-------------
ترے لئے ہے جو پیار دل میں ،کسی نے ایسا کیا نہ ہو گا
جو دل سے آواز آ رہی ہے ،تجھے میں وہ بھی سُنا نہ پایا
---------------------
کسی سے دل کی نہ بات کہنا ، مجھے بتانا یا دل میں رکھنا
سبھی تو ہوتے نہیں ہیں مخلص ،تجھے یہ باتیں بتا نہ پایا
--------------------
حسد میں جلتے ہیں لوگ اکثر، نہ پیار کرتا وہ دیکھ پائیں
یہ بُغض رکھتے ہیں دل میں اپنے ، میں چاہ کر بھی دکھا نہ پایا
------------------
ترے سوا تو نہیں ہے کوئی ، جو دل میں ارشد کے
یقین رکھنا سوا تمہارے ، خیال دل میں سما نہ پایا
--------------------------------
 

الف عین

لائبریرین
تری ہی یادیں ہیں دل میں میرے ،کبھی بھی جن کو بُھلا نہ پایا
مقام تیرا جو دل میں ہے وہ ، تجھے کبھی میں دکھا نہ پایا ( مقام تیرا کیا ہے دل میں کبھی بھی وہ میں دکھا نہ پایا )
------------------------- متبادل دوسرا مصرع تو بحر میں ہی نہیں( کیا بطور فعو، فعل ماضی سے وزن میں آتا ہے ) دل کے مقام کو کس طرح دکھایا جا سکتا ہے؟ یادوں اور دل میں مقام( عزت و احترام؟ ) کا آپس میں تعلق سمجھ میں نہیں آتا

کبھی نہ ایسا تو سوچنا بھی ،وفا پہ تیری میں شک کروں گا
نہیں ہے کوئی سوا تمہارے ،کبھی یہ باتیں بتا نہ پایا
--------------------- شتر گربہ پھر آ گیا! یہ شعر بھی دو لخت ہے

جہان سارا کہے اگر تو ، نہ دل سے تجھ کو بُھلا سکوں گا
ترے لئے جو جگہ ہے دل میں ،کبھی تجھے میں دکھا نہ پایا
------------- یہ وہی بات ہے جو مطلع میں ہے

ترے لئے ہے جو پیار دل میں ،کسی نے ایسا کیا نہ ہو گا
جو دل سے آواز آ رہی ہے ،تجھے میں وہ بھی سُنا نہ پایا
--------------------- کسی نے ایسا.... کیسا؟ اس سے پہلے فعل کا تو کوئی ذکر نہیں، پہلے ٹکڑے میں صرف پیار، اسم کا ذکر ہے۔ دوسرا مصرع بے ربط ہے

کسی سے دل کی نہ بات کہنا ، مجھے بتانا یا دل میں رکھنا
سبھی تو ہوتے نہیں ہیں مخلص ،تجھے یہ باتیں بتا نہ پایا
-------------------- بتا تو رہے ہیں یہ باتیں! پھر آخری ٹکڑا بے معنی ہو گیا ہے

حسد میں جلتے ہیں لوگ اکثر، نہ پیار کرتا وہ دیکھ پائیں
یہ بُغض رکھتے ہیں دل میں اپنے ، میں چاہ کر بھی دکھا نہ پایا
------------------ کیا دکھا نہ پائے؟ لوگوں کے دل میں بغض تو کوئی بھی نہیں دکھا سکتا!

ترے سوا تو نہیں ہے کوئی ، جو دل میں ارشد کے
یقین رکھنا سوا تمہارے ، خیال دل میں سما نہ پایا
------------------------------ پہلا مصرع نا مکمل ہے
شعر کا خیال درست ہے لیکن روانی نہیں
 
Top