غزل برائے اصلاح

الف عین
فلسفی ، خلیل الرحمن
------------
افاعیل -- مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن
حسین چہرہ کسی کا اب تک مرے خیالوں میں آ رہا ہے
چمک جو آنکھوں میں دیکھتا ہوں مجھے وہ جیسے بُلا رہا ہے
-------------------
کروں گا اُس سے میں دل کی باتیں ، ملیں گے جب بھی جہاں کہیں بھی
بنے گا میرا کبھی تو اک دن ، یقین مجھ کو یہ آ رہا ہے
------------------------------
سمٹ گیا تھا وہ پاس آ کر ، حیا سے آنکھیں جھکی جھکی تھیں
لگا تھا مجھ کو کہ دل کی باتیں وہ آج مجھ سے چھپا رہا ہے
-------------------------
مجھے یہ اُس نے بتا دیا ہے ، جو سوچ میری ہے وہ ہی اس کی
لگی ہے اچھی یہ بات اُس کی ، تبھی تو دل میں سما رہا ہے
-------------------------------
دلوں کو چھوتی ہے مسکراہٹ ،وہ دیکھ لیتا ہے جب کسی کو
وہ بن گیا ہے نصیب جیسے ، خیال ایسا ہی آ رہا ہے
-------------------
کہیں نہ ارشد ملے گا ایسا ، جو دل لبھاتا ہو اس طرح سے
خیال بن کر تبھی تو ایسے ، وہ دل میں گھستا ہی جا رہا ہے
------------------
 

الف عین

لائبریرین
حسین چہرہ کسی کا اب تک مرے خیالوں میں آ رہا ہے
چمک جو آنکھوں میں دیکھتا ہوں مجھے وہ جیسے بُلا رہا ہے
------------------- چمک کس کی آنکھوں میں؟ دو لخت لگتا ہے

کروں گا اُس سے میں دل کی باتیں ، ملیں گے جب بھی جہاں کہیں بھی
بنے گا میرا کبھی تو اک دن ، یقین مجھ کو یہ آ رہا ہے
------------------------------ ٹھیک ہے

سمٹ گیا تھا وہ پاس آ کر ، حیا سے آنکھیں جھکی جھکی تھیں
لگا تھا مجھ کو کہ دل کی باتیں وہ آج مجھ سے چھپا رہا ہے
------------------------- درست

مجھے یہ اُس نے بتا دیا ہے ، جو سوچ میری ہے وہ ہی اس کی
لگی ہے اچھی یہ بات اُس کی ، تبھی تو دل میں سما رہا ہے
------------------------------- 'وہ ہی' بجائے 'وہی' اچھا نہیں لگتا اور عیبِ تنافر بھی ہے
اگر اس نے یہ بات نہ بتائی ہوتی تو عشق کینسل کر دیتے!

دلوں کو چھوتی ہے مسکراہٹ ،وہ دیکھ لیتا ہے جب کسی کو
وہ بن گیا ہے نصیب جیسے ، خیال ایسا ہی آ رہا ہے
------------------- دو لخت ہے

کہیں نہ ارشد ملے گا ایسا ، جو دل لبھاتا ہو اس طرح سے
خیال بن کر تبھی تو ایسے ، وہ دل میں گھستا ہی جا رہا ہے
گھستا جیسا لفظ ایسے لطیف خیال کے ساتھ تو نہ استعمال کیا جائے! یہ بھی دو لخت ہے
بھائی ارشد، لگتا ہے کہ آپ دوسرے مصرعے پہلے کہہ لیتے ہیں اور پھر ان پر گرہ لگاتے ہیں۔ جو بھی وزن میں ہو۔ اگر دوسرا پہلے کہا بھی جائے تو تخیل کو آزاد چھوڑ کر دیکھیں کہ کیا کیا خیالات باندھنا اس مصرعے کے ساتھ بہتر ہو گا۔ پھر جو خیال بہترین فٹ ہو، اس کو گرہ لگانے کے لیے چن لیں۔ تخیل کو اہمیت دیں، بحر و اوزان پر تو اب قابو پا ہی لیا ہے۔
 
الف عین
دوبارا

-------------
حسین چہرہ کسی کا اب تک مرے خیالوں میں آ رہا ہے
مجھے تو ایسے ہی لگ رہا تھا وہ پاس اپنے بُلا رہا ہے
----------------------
کروں گا اُس سے میں دل کی باتیں ، ملیں گے جب بھی جہاں کہیں بھی
بنے گا میرا کبھی تو اک دن ، یقین مجھ کو یہ آ رہا ہے
-------------------------
سمٹ گیا تھا وہ پاس آ کر ، حیا سے آنکھیں جھکی جھکی تھیں
لگا تھا مجھ کو کہ دل کی باتیں ، وہ آج مجھ سے چھپا رہا ہے
--------------------
وہ سوچتا ہے مری طرح سے ، یگانگت سی جو لگ رہی تھی
لگی ہے اچھی یہ بات اُس کی ، تبھی تو دل میں سما رہا ہے
-------------------------
جو بات اُس سے میں کہہ رہا تھا ، یقین اُس پر وہ کر رہا تھا
وہ بن گیا ہو نصیب جیسے ، خیال ایسا ہی آ رہا ہے
-------------------
کہیں نہ ارشد ملے گا ایسا ، جو دل لبھاتا ہو اس طرح سے
حسین سپنا ہو جس طرح سے ،مرے خیالوں پہ چھا رہا ہے
------------- یا ---
ہو خواب جیسے حسین کوئی ،مرے خیالوں پہ چھا رہا ہے
----------------------
 

الف عین

لائبریرین
حسین چہرہ کسی کا اب تک مرے خیالوں میں آ رہا ہے
مجھے تو ایسے ہی لگ رہا تھا وہ پاس اپنے بُلا رہا ہے
---------------------- اب نہیں لگ رہا؟ بات کو اس طرح کہا جائے
مجھے تو یوں لگ رہا ہے جیسے وہ پاس......

کروں گا اُس سے میں دل کی باتیں ، ملیں گے جب بھی جہاں کہیں بھی
بنے گا میرا کبھی تو اک دن ، یقین مجھ کو یہ آ رہا ہے
-------------------------
سمٹ گیا تھا وہ پاس آ کر ، حیا سے آنکھیں جھکی جھکی تھیں
لگا تھا مجھ کو کہ دل کی باتیں ، وہ آج مجھ سے چھپا رہا ہے
-------------------- دونوں شعر درست

وہ سوچتا ہے مری طرح سے ، یگانگت سی جو لگ رہی تھی
لگی ہے اچھی یہ بات اُس کی ، تبھی تو دل میں سما رہا ہے
------------------------- شاید یہی خیال اس طرح باندھنا بہتر ہو گا

میں اس کی مانند سوچتا ہوں.، وہ سوچتا ہے مری طرح سے
لگی ہے اچھی یہ بات اُس کی ، تبھی وہ دل میں سما رہا ہے

جو بات اُس سے میں کہہ رہا تھا ، یقین اُس پر وہ کر رہا تھا
وہ بن گیا ہو نصیب جیسے ، خیال ایسا ہی آ رہا ہے
------------------- دوسرا مصرع تو اب بھی سمجھ نہیں سکا

کہیں نہ ارشد ملے گا ایسا ، جو دل لبھاتا ہو اس طرح سے
حسین سپنا ہو جس طرح سے ،مرے خیالوں پہ چھا رہا ہے
------------- یا ---
ہو خواب جیسے حسین کوئی ،مرے خیالوں پہ چھا رہا ہے
------------------- بات کس کی کی جا رہی ہے یہ سمجھ میں اب بھی نہیں آتا
دوسرے مصرعے میں 'جو' کی کمی محسوس ہوتی ہے
 
الف عین
-----------
جو بات اُس سے میں کہہ رہا تھا ، سمجھ رہا تھا وہ بات میری
ملے گا اک دن نصیب بن کے ، یوین مجھ کو یہ آ رہا ہے
----------------------
کہیں نہ ارشد ملے گا ایسا ، جو دل کو بھائے اس طرح سے
ہو خواب جیسے حسین سا جو ، مرے خیالوں پہ چھا رہا ہے
------------------
 
Top