سر اب نظرِ کرم فرمائیے گا
قفس میں بند دلِ بےقرار کا موسم۔
کسی کے رحم پہ ہے انتظار کا موسم۔
ہے دلربا یہاں کلیوں کی رنگ و بو کتنی۔
کہ لوٹ آؤ پکارے بہار کا موسم۔
ایک پل تیرے خیالوں سے ذہن خالی نہیں۔
بڑا حسین ہے نقش و نگار کا موسم۔
چراغ بھی نہیں رہ میں کہ کچھ دکھائی دے۔
ستائے گا مجھے کب تک غبار کا موسم۔
نہ کارواں کی خبر ہے نہ خط ملا ان کا۔
بگڑ گیا ہے مرے اختیار کا موسم۔
قفس میں بند دلِ بےقرار کا موسم۔
کسی کے رحم پہ ہے انتظار کا موسم۔
مجھے تو "کسی کے رحم پہ "بھلا نہیں لگا -محاورہ اور روز مرّہ کے لحاظ سے "کسی کے رحم و کرم پہ ہونا" ہی ٹھیک ہے -"کسی کے رحم پہ" نہیں -اعجاز صاحب نے غالباً مثال دی تھی نئی مختصر بحر سے متعلق کہ سابقہ بحر سے اس بحر میں کیسے تبدیل کیا جائے -پہلے مصرع میں "بند" اضافی سا محسوس ہوا -ردیف کو بھی میری رائے ہے "موسم "کے بجائے "عالم "کر دیں کہ یہ کافی جامع لفظ ہے -یوں ایک شکل ہے :
قفس میں
یوں ہے دلِ بیقرار کا
عالم
امید ہے ،میں ہوں اور انتظار کا
عالم
"میں ہوں" کا یوں گرنا اعجاز صاحب کے نزدیک جائز نہیں -میرے نزدیک گنجائش ہے -مثالیں بھی ہیں شعرا کے ہاں -باقی وہ جو تجویز کریں -
ہے دلربا یہاں کلیوں کی رنگ و بو کتنی۔
کہ لوٹ آؤ پکارے بہار کا موسم۔
اب آپ نے دونوں مصرعوں کے درمیان ربط قائم کر دیا -خوب -البتہ پہلے مصرع کی ترکیب رنگ و بو میں پہلا مذکّر ہے دوسرا مونث -اس ترکیب کو جمع کے طور پر برتیے تو مناسب ہے -اور دوسرے مصرع میں ابتدائی "کہ "بھرتی کا ہے -یوں ایک صورت ہے :
ہیں دلربا یہاں کلیوں
کے رنگ و بو
کتنے
چلے بھی آؤ پکارے بہار کا
عالم
"یہاں " کا یوں گرنا بھی گو مستحسن نہیں مگر چلتا ہے -
ایک پل تیرے خیالوں سے ذہن خالی نہیں۔
بڑا حسین ہے نقش و نگار کا موسم۔
پہلا مصرع بے وزن ہو گیا -یوں کر کے دیکھیں :
ترے خیالوں سے خالی نہیں ہے دل کوئی پل
بڑا حسین ہے نقش و نگار کا
عالم
چراغ بھی نہیں رہ میں کہ کچھ دکھائی دے۔
ستائے گا مجھے کب تک غبار کا موسم۔
بقول اعجاز صاحب ٹھیک ہے -
نہ کارواں کی خبر ہے نہ خط ملا ان کا۔
بگڑ گیا ہے مرے اختیار کا موسم۔
یہ شعر دوبارہ کہیں - نہیں سمجھ آیا -