غزل برائے اصلاح

الف عین
فلسفی ، خلیل الر حمن
-----------------
افاعیل فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
میں تمہاری یاد میں ہی اس قدر مدہوش تھا
دل بچاتا کس طرح میں ، مجھ کو کب یہ ہوش تھا
------------------
دل چُرا کر چل دیا وہ ، مجھ سے پوچھا بھی نہیں
گھر مرا ہی لُٹ رہا تھا ، میں مگر خاموش تھا
------------------
دل چُرانے آ گیا تھا دل چُرا کر لے گیا
اُس کی ہمّت تھی جواں ، وہ اس قدر پُر جوش تھا
------------------
وہ حسیں تھا اِس قدر میں دیکھتا ہی رہ گیا
مجھ سے جو وہ کہہ رہا تھا ، میں ہمہ تن گوش تھا
----------------------
دل چُرا کر جا چکا تھا جب میں آیا ہوش میں
ہر طرف ہی ڈھونڈا میں نے ،وہ مگر روپوش تھا
----------------
یہ خرابی مے کشی کی دوستو تم دیکھ لو (یہ صرف شعر ہے )
جب میں آیا ہوش میں تو ، وہ ہی ہم آغوش تھا
------------------
چور چوری کر گیا ہے چھوڑ دو ارشد اُسے
دوش کس کو دے رہے ہو ، یہ ترا ہی دوش تھا
------------------------
 

عظیم

محفلین
میں تمہاری یاد میں ہی اس قدر مدہوش تھا
دل بچاتا کس طرح میں ، مجھ کو کب یہ ہوش تھا
------------------یہ غزل آپ کی پچھلی غزلوں کے مقابلے میں بہت بہتر معلوم ہو رہی ہے ما شاء اللہ۔
مطلع میں ایطا آ گیا ہے، مدہوش اور ہوش قوافی آنے کی وجہ سے اگلے تمام اشعار میں 'ہوش' یعنی 'ہو' اور 'ش' کی ضرورت پڑے گی۔ اگر ان میں سے کسی ایک قافیے کو بدل دیں تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔

دل چُرا کر چل دیا وہ ، مجھ سے پوچھا بھی نہیں
گھر مرا ہی لُٹ رہا تھا ، میں مگر خاموش تھا
------------------پہلے مصرعے کے دوسرے ٹکڑے کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ شاید 'مڑ کے دیکھا بھی نہیں' بہتر رہے۔ 'پوچھا بھی نہیں' چوری کے ساتھ درست نہیں رہے گا۔ چوری پوچھ کر کی جائے تو چوری کیسے ہوئی ؟
اس کے علاوہ دوسرے مصرع میں مجھے پہلے کے ساتھ ربط کی کمی محسوس ہو رہی ہے

دل چُرانے آ گیا تھا دل چُرا کر لے گیا
اُس کی ہمّت تھی جواں ، وہ اس قدر پُر جوش تھا
------------------کوشش کیا کریں کہ ایک جیسے الفاظ مت استعمال کریں۔ جس طرح چرانے اور چرا ۔ اس کی وجہ سے ایسے لگتا ہے جیسے صرف خانہ پوری کی گئی ہے۔ اسی مصرع کو آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں۔
دل چرانے کے لیے آیا تھا لے کر چل دیا
اس میں ایک 'چرا' کم ہے جس کی وجہ سے مصرع کا حسن بڑھ جاتا ہے۔
دوسرع مصرع میرے خیال میں ٹھیک ہے

وہ حسیں تھا اِس قدر میں دیکھتا ہی رہ گیا
مجھ سے جو وہ کہہ رہا تھا ، میں ہمہ تن گوش تھا
----------------------صرف معمولی سی تبدیلی کی ضرورت ہے، 'مجھ سے وہ جو' سے بیان میں کمزوری پیدا ہو رہی ہے۔ اور 'ہمہ تن گوش' سے تعلق بھی نہیں بن پا رہا۔
شاید 'جانے کیا کیا کہہ رہا تھا میں ہمہ تن گوش تھا' بہتر ہو

دل چُرا کر جا چکا تھا جب میں آیا ہوش میں
ہر طرف ہی ڈھونڈا میں نے ،وہ مگر روپوش تھا
----------------اس بات کا بھی خیال رکھا کریں کہ جس مضمون کو آپ پہلے ادا کر چکے ہوں ( خاص طور پر ایک ہی غزل میں ایک ہی مضمون ) اس کو دوہرایا مت کریں
اس طرح غزل میں دلکشی نہیں رہتی۔ یونی دل چرانے والی بات اس غزل میں تین بار دوہرائی جا چکی ہے
اس شعر میں آپ کی بے ہوشی کی وجہ بھی معلوم نہیں ہوتی اور دوسرے مصرع میں 'ہی' اضافی معلوم ہو رہا ہے

یہ خرابی مے کشی کی دوستو تم دیکھ لو (یہ صرف شعر ہے )
جب میں آیا ہوش میں تو ، وہ ہی ہم آغوش تھا
------------------اس شعر میں سمجھ نہیں آ رہا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ شاید دوبارہ کہنے کی ضرورت ہے

چور چوری کر گیا ہے چھوڑ دو ارشد اُسے
دوش کس کو دے رہے ہو ، یہ ترا ہی دوش تھا
------------------------پہلے مصرع میں آپ نے اپنے سے خطاب کے لیے 'چھوڑ دو' استعمال کیا ہے تو دوسرے مصرع میں 'ترا' کی جگہ تمہارا ہونا چاہیے تھا۔
'ترا ہی' کی جگہ صرف 'تمہارا' کر لیں، اور 'ہی' جو مجھے اضافی لگ رہا ہے وہ بھی ہٹ جائے گا۔
 
الف عین
دونوں اساتذہ کی خدمت میں دوبارا۔لفظوں کے تکرار سے بچنے کی کوشش کی ہے
-------------------------
وہ محبّت میں مری تو اس قدر پُر جوش تھا
دل بچاتا کس طرح میں ، مجھ کو کب یہ ہوش تھا
------------------------
دل چُرا کر چل دیا وہ مُر کے دیکھا بھی نہیں
دل مرا لے جا رہا تھا ، میں مگر خاموش تھا
------------------
کس طرح انکار کرتا میں تو اُس کے پیار سے ( پیار سے انکار کرتا مجھ سے یہ نہ ہو سکا )
یہ نہیں تھیں ہوش کی باتیں ، نہ میں بے ہوش تھا
-----------------
دل چُرانے کے لئے آیا تھا لے چل دیا
اُس کی ہمّت تھی جواں، اہ اس قدر پُر جوش تھا
-------------------
وہ حسیں تھا اس قدر میں دیکھتا ہی رہ گیا
جانے کیا کیا کہہ رہا تھا، میں ہمہ تن گوش تھا
---------------
بھول کر وہ پیار میرا ، اب کسی کا ہو گیا
میں نے دیکھا جا رہا تھا ، غیر کے ہمدوش تھا
----------
عہد کر کے بھول جانا بے وفائی ہے یہی
بے وفائی کر رہا تھا تب ہی وہ روپوش تھا
--------------
چور چوری کر گیا ہے چھوڑ دو ارشد اُسے
دوش کس کو دے رہے ہو یہ تمہارا دوش تھا
------------------
 

الف عین

لائبریرین
وہ محبّت میں مری تو اس قدر پُر جوش تھا
دل بچاتا کس طرح میں ، مجھ کو کب یہ ہوش تھا
------------------------ پہلے مصرع میں 'تو' بھرتی کا محسوس ہوتا ہے۔ اس کی بجائے 'کچھ' کر دو تو شعر بہتر ہو جائے گا

دل چُرا کر چل دیا وہ مُر کے دیکھا بھی نہیں
دل مرا لے جا رہا تھا ، میں مگر خاموش تھا
------------------ دوسرے مصرعے میں 'دل' بلکہ مکمل دل لے جانا دہرایا گیا ہے۔ مصرع دوبارہ کہیں

کس طرح انکار کرتا میں تو اُس کے پیار سے ( پیار سے انکار کرتا مجھ سے یہ نہ ہو سکا )
یہ نہیں تھیں ہوش کی باتیں ، نہ میں بے ہوش تھا
----------------- پھر 'تو'، اور متبادل مصرع میں 'نہ' دو حرفی! مفہوم کے اعتبار سے بھی دو لخت ہے

دل چُرانے کے لئے آیا تھا لے کر چل دیا
اُس کی ہمّت تھی جواں، اہ اس قدر پُر جوش تھا
------------------- تھیک ہے

وہ حسیں تھا اس قدر میں دیکھتا ہی رہ گیا
جانے کیا کیا کہہ رہا تھا، میں ہمہ تن گوش تھا
--------------- درست، البتہ ابھی یہ خیال آیا کہ جب آپ کو معلوم ہی نہیں ہوا کہ محبوب کیا کچھ کہہ رہا تھا تو اسے 'ہمہ تن گوش' کس طرح کہا جا سکتا ہے؟

بھول کر وہ پیار میرا ، اب کسی کا ہو گیا
میں نے دیکھا جا رہا تھا ، غیر کے ہمدوش تھا
---------- دیکھا کے بعد '،' ضرور لگائیں
پہلے مصرع میں 'اب' کی معنویت سمجھ میں نہیں آتی
اسے یوں کر دیں تو کیسا رہے
بھول بیٹھا پیار کی وہ ساری باتیں، رات کو

عہد کر کے بھول جانا بے وفائی ہے یہی
بے وفائی کر رہا تھا تب ہی وہ روپوش تھا
-------------- بے وفائی کا دہرانا بھی غلطی ہے۔ روپوشی والی بات ہی اس مصرع میں اہم لگ رہی ہے، اول مصرع میں بھی اسی بات کا ذکر ہو، محض بے وفائی کا ہی نہیں

چور چوری کر گیا ہے چھوڑ دو ارشد اُسے
دوش کس کو دے رہے ہو یہ تمہارا دوش تھا
----------------- شتر گربہ تو دور ہو گیا لیکن بعد میں اس شعر پر غور کیا تو پتہ چلا کہ مفہوم کیا نکلا؟ اپنا ہی یہ قصور نکلا کہ چوری کی؟ کیا چوری ہوا؟
 
Top