سعید احمد سجاد
محفلین
الف عین
یاسر شاہ
سر اصلاح کی درخواست ہے
یہی بھول مجھ سے ہوئی تجھے سرِ شہر اپنا بنا لیا۔
نہیں آشنا جو حقیقتوں سے اک ایسا خواب سجا لیا۔
وہ خرام ناز کے ہر قدم پہ نثار ہے مرا تن بدن۔
جہاں نقش ان کا ملا مجھے تووہیں پہ قبلہ بنا لیا۔
تری سحر کن سی نگاہ کی میں تجلیوں کا ہوں منتظر۔
ترے مست مست ہیں نین وہ جنہیں آنچلوں نے چھپا لیا۔
سنے دشت میں جو پرندوں سے وہ نگارِ یار کے تذکرے۔
مرے من کا دَیر تھا خالی کب سے اب اس کا ذکر بسا لیا۔
کہیں دشت کی کڑی دھوپ میں کہیں ریگزار کی ریت پر۔
تجھے ڈھونڈتے کبھی پیاس نےکبھی آبلوں نے تھکا لیا۔
میں تمام رات اداسیوں سے تو کھیلتا ہوں کچھ اس طرح
تری ذات میں کبھی گُھل گیا کبھی خود کو خود سے چرا لیا۔
یاسر شاہ
سر اصلاح کی درخواست ہے
یہی بھول مجھ سے ہوئی تجھے سرِ شہر اپنا بنا لیا۔
نہیں آشنا جو حقیقتوں سے اک ایسا خواب سجا لیا۔
وہ خرام ناز کے ہر قدم پہ نثار ہے مرا تن بدن۔
جہاں نقش ان کا ملا مجھے تووہیں پہ قبلہ بنا لیا۔
تری سحر کن سی نگاہ کی میں تجلیوں کا ہوں منتظر۔
ترے مست مست ہیں نین وہ جنہیں آنچلوں نے چھپا لیا۔
سنے دشت میں جو پرندوں سے وہ نگارِ یار کے تذکرے۔
مرے من کا دَیر تھا خالی کب سے اب اس کا ذکر بسا لیا۔
کہیں دشت کی کڑی دھوپ میں کہیں ریگزار کی ریت پر۔
تجھے ڈھونڈتے کبھی پیاس نےکبھی آبلوں نے تھکا لیا۔
میں تمام رات اداسیوں سے تو کھیلتا ہوں کچھ اس طرح
تری ذات میں کبھی گُھل گیا کبھی خود کو خود سے چرا لیا۔