غزل برائے اصلاح

الف عین
یاسر شاہ

سر اصلاح کی درخواست ہے
یہی بھول مجھ سے ہوئی تجھے سرِ شہر اپنا بنا لیا۔
نہیں آشنا جو حقیقتوں سے اک ایسا خواب سجا لیا۔
وہ خرام ناز کے ہر قدم پہ نثار ہے مرا تن بدن۔
جہاں نقش ان کا ملا مجھے تووہیں پہ قبلہ بنا لیا۔
تری سحر کن سی نگاہ کی میں تجلیوں کا ہوں منتظر۔
ترے مست مست ہیں نین وہ جنہیں آنچلوں نے چھپا لیا۔
سنے دشت میں جو پرندوں سے وہ نگارِ یار کے تذکرے۔
مرے من کا دَیر تھا خالی کب سے اب اس کا ذکر بسا لیا۔
کہیں دشت کی کڑی دھوپ میں کہیں ریگزار کی ریت پر۔
تجھے ڈھونڈتے کبھی پیاس نےکبھی آبلوں نے تھکا لیا۔
میں تمام رات اداسیوں سے تو کھیلتا ہوں کچھ اس طرح
تری ذات میں کبھی گُھل گیا کبھی خود کو خود سے چرا لیا۔
 

الف عین

لائبریرین
یہی بھول مجھ سے ہوئی تجھے سرِ شہر اپنا بنا لیا۔
نہیں آشنا جو حقیقتوں سے اک ایسا خواب سجا لیا۔
... سرِ شہر؟ اس مصرعے کو بدل دیں جیسے
یہی ایک مجھ سے خطا ہوئی تجھے میں نے اپنا بنا لیا

وہ خرام ناز کے ہر قدم پہ نثار ہے مرا تن بدن۔
جہاں نقش ان کا ملا مجھے تووہیں پہ قبلہ بنا لیا۔
.... بے معنی لگتا ہے۔ اگر پہلے مصرع میں 'کے' کی جگہ 'کہ' مان لیا جائے تو شاید درست ہو

تری سحر کن سی نگاہ کی میں تجلیوں کا ہوں منتظر۔
ترے مست مست ہیں نین وہ جنہیں آنچلوں نے چھپا لیا۔
... آنچلوں؟ ایک وقت میں ایک ہی آنچل استعمال کرتی ہیں لڑکیاں!

سنے دشت میں جو پرندوں سے وہ نگارِ یار کے تذکرے۔
مرے من کا دَیر تھا خالی کب سے اب اس کا ذکر بسا لیا۔
... دَیر میں بت رکھے جاتے ہیں ذکر نہیں۔ پرندے محترمہ کا ذکر کیوں کر رہے ہیں؟ پرندوں' کے وں' کے اسقاط اور 'خالی' کی 'ی' کا اسقاط شعر کی روانی کو متاثر کر رہا ہے۔ اسے پھر کہو

کہیں دشت کی کڑی دھوپ میں کہیں ریگزار کی ریت پر۔
تجھے ڈھونڈتے کبھی پیاس نےکبھی آبلوں نے تھکا لیا۔
... تھکا لیا غلط محاورہ ہے
تجھے ڈھونڈتے .. بھی سمجھ میں نہیں آیا

میں تمام رات اداسیوں سے تو کھیلتا ہوں کچھ اس طرح
تری ذات میں کبھی گُھل گیا کبھی خود کو خود سے چرا لیا
.... پہلے مصرع میں 'تو' بھرتی کا ہے، ہاں، 'تمام رات ہی' معنی خیز لگتا ہے
میں تمام رات ہی کھیلتا ہوں اداسیوں سے کچھ اس طرح
بہتر ہو گا اگرچہ یہ بحر دو حصوں میں منقسم لگتی ہے اور 'کھیلتا ہوں' ٹوٹ جاتا ہے
 
یہی بھول مجھ سے ہوئی تجھے سرِ شہر اپنا بنا لیا۔
نہیں آشنا جو حقیقتوں سے اک ایسا خواب سجا لیا۔
... سرِ شہر؟ اس مصرعے کو بدل دیں جیسے
یہی ایک مجھ سے خطا ہوئی تجھے میں نے اپنا بنا لیا

وہ خرام ناز کے ہر قدم پہ نثار ہے مرا تن بدن۔
جہاں نقش ان کا ملا مجھے تووہیں پہ قبلہ بنا لیا۔
.... بے معنی لگتا ہے۔ اگر پہلے مصرع میں 'کے' کی جگہ 'کہ' مان لیا جائے تو شاید درست ہو

تری سحر کن سی نگاہ کی میں تجلیوں کا ہوں منتظر۔
ترے مست مست ہیں نین وہ جنہیں آنچلوں نے چھپا لیا۔
... آنچلوں؟ ایک وقت میں ایک ہی آنچل استعمال کرتی ہیں لڑکیاں!

سنے دشت میں جو پرندوں سے وہ نگارِ یار کے تذکرے۔
مرے من کا دَیر تھا خالی کب سے اب اس کا ذکر بسا لیا۔
... دَیر میں بت رکھے جاتے ہیں ذکر نہیں۔ پرندے محترمہ کا ذکر کیوں کر رہے ہیں؟ پرندوں' کے وں' کے اسقاط اور 'خالی' کی 'ی' کا اسقاط شعر کی روانی کو متاثر کر رہا ہے۔ اسے پھر کہو

کہیں دشت کی کڑی دھوپ میں کہیں ریگزار کی ریت پر۔
تجھے ڈھونڈتے کبھی پیاس نےکبھی آبلوں نے تھکا لیا۔
... تھکا لیا غلط محاورہ ہے
تجھے ڈھونڈتے .. بھی سمجھ میں نہیں آیا

میں تمام رات اداسیوں سے تو کھیلتا ہوں کچھ اس طرح
تری ذات میں کبھی گُھل گیا کبھی خود کو خود سے چرا لیا
.... پہلے مصرع میں 'تو' بھرتی کا ہے، ہاں، 'تمام رات ہی' معنی خیز لگتا ہے
میں تمام رات ہی کھیلتا ہوں اداسیوں سے کچھ اس طرح
بہتر ہو گا اگرچہ یہ بحر دو حصوں میں منقسم لگتی ہے اور 'کھیلتا ہوں' ٹوٹ جاتا ہے
شکریہ سر بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہوں
 
یہی بھول مجھ سے ہوئی تجھے سرِ شہر اپنا بنا لیا۔
نہیں آشنا جو حقیقتوں سے اک ایسا خواب سجا لیا۔
... سرِ شہر؟ اس مصرعے کو بدل دیں جیسے
یہی ایک مجھ سے خطا ہوئی تجھے میں نے اپنا بنا لیا

وہ خرام ناز کے ہر قدم پہ نثار ہے مرا تن بدن۔
جہاں نقش ان کا ملا مجھے تووہیں پہ قبلہ بنا لیا۔
.... بے معنی لگتا ہے۔ اگر پہلے مصرع میں 'کے' کی جگہ 'کہ' مان لیا جائے تو شاید درست ہو

تری سحر کن سی نگاہ کی میں تجلیوں کا ہوں منتظر۔
ترے مست مست ہیں نین وہ جنہیں آنچلوں نے چھپا لیا۔
... آنچلوں؟ ایک وقت میں ایک ہی آنچل استعمال کرتی ہیں لڑکیاں!

سنے دشت میں جو پرندوں سے وہ نگارِ یار کے تذکرے۔
مرے من کا دَیر تھا خالی کب سے اب اس کا ذکر بسا لیا۔
... دَیر میں بت رکھے جاتے ہیں ذکر نہیں۔ پرندے محترمہ کا ذکر کیوں کر رہے ہیں؟ پرندوں' کے وں' کے اسقاط اور 'خالی' کی 'ی' کا اسقاط شعر کی روانی کو متاثر کر رہا ہے۔ اسے پھر کہو

کہیں دشت کی کڑی دھوپ میں کہیں ریگزار کی ریت پر۔
تجھے ڈھونڈتے کبھی پیاس نےکبھی آبلوں نے تھکا لیا۔
... تھکا لیا غلط محاورہ ہے
تجھے ڈھونڈتے .. بھی سمجھ میں نہیں آیا

میں تمام رات اداسیوں سے تو کھیلتا ہوں کچھ اس طرح
تری ذات میں کبھی گُھل گیا کبھی خود کو خود سے چرا لیا
.... پہلے مصرع میں 'تو' بھرتی کا ہے، ہاں، 'تمام رات ہی' معنی خیز لگتا ہے
میں تمام رات ہی کھیلتا ہوں اداسیوں سے کچھ اس طرح
بہتر ہو گا اگرچہ یہ بحر دو حصوں میں منقسم لگتی ہے اور 'کھیلتا ہوں' ٹوٹ جاتا ہے
 
یہی بھول مجھ سے ہوئی تجھے سرِ شہر اپنا بنا لیا۔
نہیں آشنا جو حقیقتوں سے اک ایسا خواب سجا لیا۔
... سرِ شہر؟ اس مصرعے کو بدل دیں جیسے
یہی ایک مجھ سے خطا ہوئی تجھے میں نے اپنا بنا لیا

وہ خرام ناز کے ہر قدم پہ نثار ہے مرا تن بدن۔
جہاں نقش ان کا ملا مجھے تووہیں پہ قبلہ بنا لیا۔
.... بے معنی لگتا ہے۔ اگر پہلے مصرع میں 'کے' کی جگہ 'کہ' مان لیا جائے تو شاید درست ہو

تری سحر کن سی نگاہ کی میں تجلیوں کا ہوں منتظر۔
ترے مست مست ہیں نین وہ جنہیں آنچلوں نے چھپا لیا۔
... آنچلوں؟ ایک وقت میں ایک ہی آنچل استعمال کرتی ہیں لڑکیاں!

سنے دشت میں جو پرندوں سے وہ نگارِ یار کے تذکرے۔
مرے من کا دَیر تھا خالی کب سے اب اس کا ذکر بسا لیا۔
... دَیر میں بت رکھے جاتے ہیں ذکر نہیں۔ پرندے محترمہ کا ذکر کیوں کر رہے ہیں؟ پرندوں' کے وں' کے اسقاط اور 'خالی' کی 'ی' کا اسقاط شعر کی روانی کو متاثر کر رہا ہے۔ اسے پھر کہو

کہیں دشت کی کڑی دھوپ میں کہیں ریگزار کی ریت پر۔
تجھے ڈھونڈتے کبھی پیاس نےکبھی آبلوں نے تھکا لیا۔
... تھکا لیا غلط محاورہ ہے
تجھے ڈھونڈتے .. بھی سمجھ میں نہیں آیا

میں تمام رات اداسیوں سے تو کھیلتا ہوں کچھ اس طرح
تری ذات میں کبھی گُھل گیا کبھی خود کو خود سے چرا لیا
.... پہلے مصرع میں 'تو' بھرتی کا ہے، ہاں، 'تمام رات ہی' معنی خیز لگتا ہے
میں تمام رات ہی کھیلتا ہوں اداسیوں سے کچھ اس طرح
بہتر ہو گا اگرچہ یہ بحر دو حصوں میں منقسم لگتی ہے اور 'کھیلتا ہوں' ٹوٹ جاتا ہے
سر اب نظرِ کرم فرما دیجیئے
یہی ایک مجھ سے خطا ہوئی تجھے میں نے اپنا بنا لیا
نہیں آشنا جو حقیقتوں سے اک ایسا خواب سجا لیا۔
اے خرام ناز کہ تم پہ یوں ہے نثار اب مرا تن بدن۔
جہاں سے نقش تیراملا مجھے تووہیں پہ قبلہ بنا لیا۔
تری سحر کن سی نگاہ کی میں تجلیوں کا ہوں منتظر۔
ترے مست مست ہیں نین وہ جنہیں تُو نے مجھ سےچھپا لیا۔
میں گیا جہاں بھی ہجوم میں تھےنگارِ یار کے تذکرے۔
مرا نام لیں گے زباں سے وہ تبھی عاشقوں میں لکھا لیا۔
کہیں دشت کی کڑی دھوپ میں کہیں ریگزار کی ریت پر۔
کبھی رو پڑا تری یاد میں کبھی غم کا بار اٹھا لیا۔
میں تمام رات اداسیوں کو سمیٹتا ہوں کچھ اس طرح
تری ذات میں کبھی گُھل گیا کبھی خود کو خود سے چرا لیا۔
 

الف عین

لائبریرین
یہی ایک مجھ سے خطا ہوئی تجھے میں نے اپنا بنا لیا
نہیں آشنا جو حقیقتوں سے اک ایسا خواب سجا لیا۔
.. درست، اگرچہ دو لختی کی کیفیت ہے

اے خرام ناز کہ تم پہ یوں ہے نثار اب مرا تن بدن۔
جہاں سے نقش تیراملا مجھے تووہیں پہ قبلہ بنا لیا۔
....شتر گربہ ہے، 'اے' کی ے گرنا اچھا نہیں لگ رہا،، ویسے چل بھی سکتا ہے 'اب' بھرتی کا ہے، دوسرے مصرعے میں 'سے' زائد ہے
اسے یوں کر دیں
وہ خرامِ ناز ترا کہ جس پہ نثار ہے مرا تن بدن
ترا نقش پا جہاں مل گیا، وہیں قبلہ میں نے بنا لیا

تری سحر کن سی نگاہ کی میں تجلیوں کا ہوں منتظر۔
ترے مست مست ہیں نین وہ جنہیں تُو نے مجھ سےچھپا لیا۔
... ٹھیک ہے

میں گیا جہاں بھی ہجوم میں تھےنگارِ یار کے تذکرے۔
مرا نام لیں گے زباں سے وہ تبھی عاشقوں میں لکھا لیا۔
... دوسرا مصرع رواں نہیں کہ بات نا مکمل ہے۔ دو لخت بھی ہے

کہیں دشت کی کڑی دھوپ میں کہیں ریگزار کی ریت پر۔
کبھی رو پڑا تری یاد میں کبھی غم کا بار اٹھا لیا۔
... درست

میں تمام رات اداسیوں کو سمیٹتا ہوں کچھ اس طرح
تری ذات میں کبھی گُھل گیا کبھی خود کو خود سے چرا لیا۔
.. یہ اچھا ہو گیا اب
 
سر اب نظرِ کرم فرما دیجیئے
یہی ایک مجھ سے خطا ہوئی تجھے میں نے اپنا بنا لیا
نہیں آشنا جو حقیقتوں سے اک ایسا خواب سجا لیا۔
اے خرام ناز کہ تم پہ یوں ہے نثار اب مرا تن بدن۔
جہاں سے نقش تیراملا مجھے تووہیں پہ قبلہ بنا لیا۔
تری سحر کن سی نگاہ کی میں تجلیوں کا ہوں منتظر۔
ترے مست مست ہیں نین وہ جنہیں تُو نے مجھ سےچھپا لیا۔
میں گیا جہاں بھی ہجوم میں تھےنگارِ یار کے تذکرے۔
مرا نام لیں گے زباں سے وہ تبھی عاشقوں میں لکھا لیا۔
کہیں دشت کی کڑی دھوپ میں کہیں ریگزار کی ریت پر۔
کبھی رو پڑا تری یاد میں کبھی غم کا بار اٹھا لیا۔
میں تمام
یہی ایک مجھ سے خطا ہوئی تجھے میں نے اپنا بنا لیا
نہیں آشنا جو حقیقتوں سے اک ایسا خواب سجا لیا۔
.. درست، اگرچہ دو لختی کی کیفیت ہے

اے خرام ناز کہ تم پہ یوں ہے نثار اب مرا تن بدن۔
جہاں سے نقش تیراملا مجھے تووہیں پہ قبلہ بنا لیا۔
....شتر گربہ ہے، 'اے' کی ے گرنا اچھا نہیں لگ رہا،، ویسے چل بھی سکتا ہے 'اب' بھرتی کا ہے، دوسرے مصرعے میں 'سے' زائد ہے
اسے یوں کر دیں
وہ خرامِ ناز ترا کہ جس پہ نثار ہے مرا تن بدن
ترا نقش پا جہاں مل گیا، وہیں قبلہ میں نے بنا لیا

تری سحر کن سی نگاہ کی میں تجلیوں کا ہوں منتظر۔
ترے مست مست ہیں نین وہ جنہیں تُو نے مجھ سےچھپا لیا۔
... ٹھیک ہے

میں گیا جہاں بھی ہجوم میں تھےنگارِ یار کے تذکرے۔
مرا نام لیں گے زباں سے وہ تبھی عاشقوں میں لکھا لیا۔
... دوسرا مصرع رواں نہیں کہ بات نا مکمل ہے۔ دو لخت بھی ہے

کہیں دشت کی کڑی دھوپ میں کہیں ریگزار کی ریت پر۔
کبھی رو پڑا تری یاد میں کبھی غم کا بار اٹھا لیا۔
... درست

میں تمام رات اداسیوں کو سمیٹتا ہوں کچھ اس طرح
تری ذات میں کبھی گُھل گیا کبھی خود کو خود سے چرا لیا۔
.. یہ اچھا ہو گیا اب
میں گیا ہجوم میں ہر جگہ تھے نگارِ یار کے تذکرے۔
مری اُن سے نسبتِ خاص تھی تا وہاں ہی خیمہ لگا لیا۔
سر اب اس شعر پہ نظر ثانی کیجیے گا
 

الف عین

لائبریرین
میں گیا ہجوم میں ہر جگہ تھے نگارِ یار کے تذکرے۔
مری اُن سے نسبتِ خاص تھی تا وہاں ہی خیمہ لگا لیا۔
سر اب اس شعر پہ نظر ثانی کیجیے گا
مری اُن سے نسبتِ خاص تھی، سو وہیں پہ خیمہ لگا لیا۔
بہتر ہو گا
میں گیا کے بعد کاما ضرور لگائیں
 
Top