غزل برائے اصلاح

الف عین
افاعیل -- مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن
عطیم، وارث، فلسفی، خلیل الرحمن
----------------
ہے آدمی کا آدمی ہی دشمن اِس جہان میں
یہ آدمی ہی آدمی کے ہے یہاں دھیان میں
--------------
ہے آدمی کی دوستی بھی آدمی کے ساتھ ہی
ہے آدمی کے واسطے ہی تیر بھی کمان میں
----------------
یہاں خطر ہے آدمی کو آدمی سے جان کا
ہے آدمی سے آدمی کی جان بھی امان میں
-------------------
ہے آدمی کے واسظے تو آدمی ہی معتبر
یہ آدمی ہی چاہتا ہے آدمی اذان میں
----------------
یہ آدمی ہی مانتا ہے آدمی کا حکم سب
ہے آدمی ہی آدمی کی دیکھ لو عنان میں
----------------------
ہے آدمی کے حِفظ میں ہی آدمی یہاں وہاں
یہ آدمی سے چُھپ رہا ہے آدمی مکان میں
-----------------
بُری نہیں ہے بات تو وہ مان لے گا آدمی
میں دیکھتا ہوں بات یہ تو ہر کسی جوان میں
-----------------
جو آدمی کی بات ہو وہ آدمی کے ساتھ ہو
نہ آدمی کی بات کو کرو کبھی زنان میں
----------------
حقیقتوں سے چُھپ رہے ہیں جو یہاں پہ آدمی
حقیقتوں کا سامنا کبھی نہیں گمان میں
---------------
ہیں عورتوں کی چال کے بہت یہاں پہ آدمی
ہے لازمی کمی رہی جو ان کی کچھ اُٹھان میں
----------------
ہے اک یہاں پہ آدمی جو بات کر رہا ہے یہ
ہو بات سب کے سامنے ، کرو کبھی نہ کان میں
-------------
 
الف عین
افاعیل -- مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن
عطیم، وارث، فلسفی، خلیل الرحمن
----------------
ہے آدمی کا آدمی ہی دشمن اِس جہان میں
یہ آدمی ہی آدمی کے ہے یہاں دھیان میں
--------------
ہے آدمی کی دوستی بھی آدمی کے ساتھ ہی
ہے آدمی کے واسطے ہی تیر بھی کمان میں
----------------
یہاں خطر ہے آدمی کو آدمی سے جان کا
ہے آدمی سے آدمی کی جان بھی امان میں
-------------------
ہے آدمی کے واسظے تو آدمی ہی معتبر
یہ آدمی ہی چاہتا ہے آدمی اذان میں
----------------
یہ آدمی ہی مانتا ہے آدمی کا حکم سب
ہے آدمی ہی آدمی کی دیکھ لو عنان میں
----------------------
ہے آدمی کے حِفظ میں ہی آدمی یہاں وہاں
یہ آدمی سے چُھپ رہا ہے آدمی مکان میں
-----------------
بُری نہیں ہے بات تو وہ مان لے گا آدمی
میں دیکھتا ہوں بات یہ تو ہر کسی جوان میں
-----------------
جو آدمی کی بات ہو وہ آدمی کے ساتھ ہو
نہ آدمی کی بات کو کرو کبھی زنان میں
----------------
حقیقتوں سے چُھپ رہے ہیں جو یہاں پہ آدمی
حقیقتوں کا سامنا کبھی نہیں گمان میں
---------------
ہیں عورتوں کی چال کے بہت یہاں پہ آدمی
ہے لازمی کمی رہی جو ان کی کچھ اُٹھان میں
----------------
ہے اک یہاں پہ آدمی جو بات کر رہا ہے یہ
ہو بات سب کے سامنے ، کرو کبھی نہ کان میں
-------------
ارشد بھائی بہت اچھی کوشش ہے لیکن اس شعر کی مجھے سمجھ نہیں آئی بطورِ قاری
ہے آدمی کے واسظے تو آدمی ہی معتبر
یہ آدمی ہی چاہتا ہے آدمی اذان میں
آدمی کون ہے جو اذان میں بھی دوسرے آدمی کا ذکر چاہتا ہے
 
سعید بہت شکریہ ، لیکن میرا مطلب وہ نہیں جو آپ سمجھے،میرا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آدمی کا آدمی پر اعتماد اتنا ہے کہ وہ چاہتا کہ کوئی آدمی ہی اذان دے۔لیکن بظاہر مطلب وہ بھی نکلتا ہے جو آپ سمجھے ۔یہ اتنا مضبوط شعر نہیں ، میں کچھ اور سوچتا ہوں۔بہت خوشی ہوئی کہ میرے ٹوٹے پھوٹے اشعار پڑھتے ہیں ۔ آپ ایسا کریں کہ اساتذہ سے پہلے ایک نظر پھر دیکھ لیں تاکہ کوئی اور نقص ہو تو سامنے آ جائے ، دوبارا شکر گزار ہوں
 
سعید بہت شکریہ ، لیکن میرا مطلب وہ نہیں جو آپ سمجھے،میرا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آدمی کا آدمی پر اعتماد اتنا ہے کہ وہ چاہتا کہ کوئی آدمی ہی اذان دے۔لیکن بظاہر مطلب وہ بھی نکلتا ہے جو آپ سمجھے ۔یہ اتنا مضبوط شعر نہیں ، میں کچھ اور سوچتا ہوں۔بہت خوشی ہوئی کہ میرے ٹوٹے پھوٹے اشعار پڑھتے ہیں ۔ آپ ایسا کریں کہ اساتذہ سے پہلے ایک نظر پھر دیکھ لیں تاکہ کوئی اور نقص ہو تو سامنے آ جائے ، دوبارا شکر گزار ہوں
یہ آدمی ہی مانتا ہے آدمی کا حکم سب
ہے آدمی ہی آدمی کی دیکھ لو عنان میں
یہ آدمی ہی مانتا ہے آدمی کےحکم سب
ہے آدمی ہی آدمی کی اس طرح عنان میں
ابھی مجھے یہ واضح نہیں کہ عنان تانیث ہے یا نہیں
حقیقتوں سے چُھپ رہے ہیں جو یہاں پہ آدمی
حقیقتوں کا سامنا کبھی نہیں گمان میں
آپ کے اس شعر کی بھی مجھے سمجھ نہیں آ رہی کیونکہ حقیقت سے کبھی نہ چھپا جا سکتا ہے اور نہ چھپائی جا سکتی ہے اساتذہ اکرام بہتر سمجھ سکیں گے اس شعر کو
ہیں عورتوں کی چال کے بہت یہاں پہ آدمی
ہے لازمی کمی رہی جو ان کی کچھ اُٹھان میں
اس کا مطلب بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ بیان کیا کرنا چاہتے ہیں
ہے اک یہاں پہ آدمی جو بات کر رہا ہے یہ
ہو بات سب کے سامنے ، کرو کبھی نہ کان میں
کچھ باتیں سب کے سامنے کرنے والی نہیں ہوتیں وہ پسِ پردہ ہوں تو بہتری ہوتی ہے
 
سعید بہت شکریہ ، لیکن میرا مطلب وہ نہیں جو آپ سمجھے،میرا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آدمی کا آدمی پر اعتماد اتنا ہے کہ وہ چاہتا کہ کوئی آدمی ہی اذان دے۔لیکن بظاہر مطلب وہ بھی نکلتا ہے جو آپ سمجھے ۔یہ اتنا مضبوط شعر نہیں ، میں کچھ اور سوچتا ہوں۔بہت خوشی ہوئی کہ میرے ٹوٹے پھوٹے اشعار پڑھتے ہیں ۔ آپ ایسا کریں کہ اساتذہ سے پہلے ایک نظر پھر دیکھ لیں تاکہ کوئی اور نقص ہو تو سامنے آ جائے ، دوبارا شکر گزار ہوں
ارشد بھائی ایک مشورہ ہے آپ پہلے عشقیہ شاعری کرنے کی کوشش کریں عام فہم شاعری جب آپ کو کچھ عبور حاصل ہو جائے تو پھر نصیحت آموز اشعار لکھیں
 
سعید بھائی کچھ متبادل اشعار عرض ہیں---آپ نے جو کچھ تبدیلیاں کی ہیں بہت اچھی ہیں حقیقتوں والے شعر میں۔۔۔۔عورتوں کی چال والے شعر میں میرا اشارہ شی میلز کی طرف تھا یعنی جو مرد عورتوں کی طرح چال ڈھال اور گفتگو کرتے ہیں۔۔محترم الف عین بھی دیکھ لیں تو آپ کی تبدیلیوں کو مدِّ نظر رکھ کر دوبارا لکھوں گا
-----------
ہے آدمی کے واسطے تو آدمی ہی معتبر
کہیں پہ جاکے دیکھ لو ہے آدمی بیان میں
------------
ہے آدمی ہی آدمی کے واسطے تو معتبر
تُو دیکھتا ہے آدمی کی رہبری جہان میں
------
ہے ہر جگہ پہ آدمی ہی آدمی کے کام کا
یہ آدمی ہی پونچھتا ہے آنکھ بھی فغان میں
-----------------
 

الف عین

لائبریرین
بعد کے یہ تین اشعار کیا ان اشعار کے بدلے میں کہے ہیں؟ یعنی اصلاح باقی غزل کی اور ان تین اشعار کی کی جائے؟
ہے آدمی کا آدمی ہی دشمن اِس جہان میں
یہ آدمی ہی آدمی کے ہے یہاں دھیان میں
-------------- دھیان کا تلفظ پھر غلط ہو گیا، پیار کی طرح یہ بھی محض 'دان' تقطیع ہوتا ہے۔ درست ہونے پر بھی دو لختی باقی رہتی ہے

ہے آدمی کی دوستی بھی آدمی کے ساتھ ہی
ہے آدمی کے واسطے ہی تیر بھی کمان میں
---------------- درست

یہاں خطر ہے آدمی کو آدمی سے جان کا
ہے آدمی سے آدمی کی جان بھی امان میں
------------------- یہ بھی درست

ہے آدمی کے واسظے تو آدمی ہی معتبر
یہ آدمی ہی چاہتا ہے آدمی اذان میں
---------------- یہ اور اس کے متبادل جو دو اشعار پچھلے مراسلے میں ہیں، سارے بے ربط ہیں۔

یہ آدمی ہی مانتا ہے آدمی کا حکم سب
ہے آدمی ہی آدمی کی دیکھ لو عنان میں
--------------------- اس کی اصلاح عزیزی سعید سجاد نے عمدہ کر دی ہے

ہے آدمی کے حِفظ میں ہی آدمی یہاں وہاں
یہ آدمی سے چُھپ رہا ہے آدمی مکان میں
----------------- دوسرے مصرعے میں 'بھی' آ سکے تو بہتر ہو جائے، درست ہے

بُری نہیں ہے بات تو وہ مان لے گا آدمی
میں دیکھتا ہوں بات یہ تو ہر کسی جوان میں
----------------- مربوط نہیں

جو آدمی کی بات ہو وہ آدمی کے ساتھ ہو
نہ آدمی کی بات کو کرو کبھی زنان میں
---------------- درست تو ہے لیکن خواہ مخواہ کا شعر لگتا ہے

حقیقتوں سے چُھپ رہے ہیں جو یہاں پہ آدمی
حقیقتوں کا سامنا کبھی نہیں گمان میں
-------------
ٹھیک ہے 'جو' کی بجائے 'کیوں' کیسا رہے گا؟

ہے آدمی کے واسطے تو آدمی ہی معتبر
کہیں پہ جاکے دیکھ لو ہے آدمی بیان میں
------------ دو لخت

ہے آدمی ہی آدمی کے واسطے تو معتبر
تُو دیکھتا ہے آدمی کی رہبری جہان میں
------ یہ بھی دو لخت ہے

ہے ہر جگہ پہ آدمی ہی آدمی کے کام کا
یہ آدمی ہی پونچھتا ہے آنکھ بھی فغان میں
.... فغان عام طور پر غنہ کے ساتھ فغاں ہی استعمال کیا جاتا ہے اردو شاعری میں۔ یا اضافت کے ساتھ۔ مزید یہ کہ ضروری نہیں کہ آہ و فغاں میں آنسو بھی نکلیں جن کے پونچھنے کا ذکر ہے۔ اور کیونکہ یہ قافیہ ہی ہے اس لیے عر کو نکال ہی دیں
 
الف عین
------------
جو اشعار ٹھیک تھے ،اُن کو چھوڑ کر باقی کی تصحیح
--------------------
مطلع
گر آدمی کا آدمی ہے دشمن اس جہان میں
یہ کر رہا ہے مدح بھی تو آدمی کی شان میں
-----------------
سمجھ رہے ہیں بات کو ، جو کر رہا ہوں اِن سے میں
میں بات کر رہا ہوں جو ہے انہی کی زبان میں (انہی سے کر رہا ہوں بات ، انہی کی زبان میں )
--------------------
بھلی اگر ہو بات تو وہ مان لیں گے سب کے سب
روش یہی تو دیکھتا ہوں کسی مسلمان میں
----------------
حقیقتوں سے چُھپ رہے ہیں جو یہاں پہ آدمی
حقیقتوں کا سامنا کبھی نہیں گمان میں
-----------------
ہے ہرجگہ پہ آدمی ہی آدمی کے کام کا
دبا رہا ہے جسم بھی یہ کسی کا تکان میں
---------------
 

الف عین

لائبریرین
مطلع درست ہو گیا
دوسرا شعر یوں ہو تو..
انہی سے کر رہا ہوں بات ، میں اسی زبان میں
بہتر ہو گا۔
باقی اشعار زبردستی والے ہیں، ان کو رکھنے کی ضرورت نہیں
 
Top