ارشد چوہدری
محفلین
الف عین
عظیم ،سعید احمد سجّاد، فلسفی، وارث، خلیل الر حمن
----------------
افاعیل-- مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن
-------------------
میں آج تجھ کو دیکھتا ہوں باہوں میں رقیب کی
گلہ کروں تو کیا کروں ، یہ بات ہے نصیب کی
------------------
چلا گیا ہے دور اب خفا ہے اس غریب سے
رہی نہیں نصیب میں تو شکل بھی حبیب کی
---------------------
عزیز کب ہے جان اب ، دعا کروں گا موت کی
نکال دی ہے کان سے جو بات تھی طبیب کی
-------------------
مصیبتیں ہزار ہیں یہ اب مرے نصیب میں
نظر نہیں تھی دور کی تو اب گئی قریب کی
--------------
کرو خطا تو مان لو ،کرو دعا خدا سے بھر
یہ بات سُن کے مان لی یہ بات تھی خطیب کی
----------------
ترے لئے تو جان بھی میں دے سکوں گا پیار میں
جو کہہ رہا ہوں بات میں ، یہ ہے کسی ادیب کی
-------------
مرے سبھی رقیب ہیں ، کروں گلہ تو کس سے میں
وہی مرا رہا نہیں ، یہ سوچ ہے حبیب کی
-----------------------
مری دعا سُنے گا وہ مجھے تو یہ یقین ہے
رحیم ہے ، کریم ہے ، یہ بات ہے مجیب کی
--------------------
اُٹھا ہوا تھا اس کا سر،وہ بات کر رہا تھا جب
اُسے نہیں یہ جانتے ، یہ بات ہے نسیب کی
------------
اُٹھاکے، پھر گرا دیا ، وہ بات کر رہا تھا جب
اچھی لگی نہ بات جو ،وہ بات تھی رقیب کی
-----------------
عظیم ،سعید احمد سجّاد، فلسفی، وارث، خلیل الر حمن
----------------
افاعیل-- مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن
-------------------
میں آج تجھ کو دیکھتا ہوں باہوں میں رقیب کی
گلہ کروں تو کیا کروں ، یہ بات ہے نصیب کی
------------------
چلا گیا ہے دور اب خفا ہے اس غریب سے
رہی نہیں نصیب میں تو شکل بھی حبیب کی
---------------------
عزیز کب ہے جان اب ، دعا کروں گا موت کی
نکال دی ہے کان سے جو بات تھی طبیب کی
-------------------
مصیبتیں ہزار ہیں یہ اب مرے نصیب میں
نظر نہیں تھی دور کی تو اب گئی قریب کی
--------------
کرو خطا تو مان لو ،کرو دعا خدا سے بھر
یہ بات سُن کے مان لی یہ بات تھی خطیب کی
----------------
ترے لئے تو جان بھی میں دے سکوں گا پیار میں
جو کہہ رہا ہوں بات میں ، یہ ہے کسی ادیب کی
-------------
مرے سبھی رقیب ہیں ، کروں گلہ تو کس سے میں
وہی مرا رہا نہیں ، یہ سوچ ہے حبیب کی
-----------------------
مری دعا سُنے گا وہ مجھے تو یہ یقین ہے
رحیم ہے ، کریم ہے ، یہ بات ہے مجیب کی
--------------------
اُٹھا ہوا تھا اس کا سر،وہ بات کر رہا تھا جب
اُسے نہیں یہ جانتے ، یہ بات ہے نسیب کی
------------
اُٹھاکے، پھر گرا دیا ، وہ بات کر رہا تھا جب
اچھی لگی نہ بات جو ،وہ بات تھی رقیب کی
-----------------