سعید احمد سجاد
محفلین
الف عین
یاسر شاہ
محمد خلیل الرحمٰن
عظیم
فلسفی
سر بحر بدل کراصلاح کے لئے حاضرِ خدمت ہوں احباب سے درخواست ہے کہ تنقید دلجمعی کے ساتھ کرنا تا کہ غلطیوں کی اصلاح ہو جائے ۔اس غزل میں میرے پچھلے نصابوں کی نسبت زیادہ غلطیاں ہونگی۔
سراب سائے ہیں میرےدیار میں شاید۔
خدا کھلائےگُلِ اس ریگزار میں شاید۔
یہی ہے بارِگراں مجھ پر آج تک قائم
نہ تم، نہ دل ہےمرے اختیار میں شاید
فراقِ یار تعین ہو کچھ تری حد کا ۔
حیات یوں نہ کٹے انتظار میں شاید۔
نہ رُخ سے زلفِ پریشاں ہٹاؤ تم ایسے۔
دہک اُٹھیں گے شرارے بہار میں شاید۔
تری امید پہ رہ میں کھڑا کھڑا اب تک۔
بنا ہوں ایک ہیولا غبار میں شاید۔
تمھیں میں ہار کے آنکھیں ملاؤں اب کیسے۔
نہیں رہی سَکَت اس خاکسار میں شاید۔
خمار اپنا ہی تھا اُس گداگری کا بھی۔
چڑھا نہ پھر وہ نشہ اقتدار میں شاید
کِیا حساب وفاداریوں کا جب میں نے۔
تو آئے چند پتنگے شمار میں شاید۔
شکریہ
یاسر شاہ
محمد خلیل الرحمٰن
عظیم
فلسفی
سر بحر بدل کراصلاح کے لئے حاضرِ خدمت ہوں احباب سے درخواست ہے کہ تنقید دلجمعی کے ساتھ کرنا تا کہ غلطیوں کی اصلاح ہو جائے ۔اس غزل میں میرے پچھلے نصابوں کی نسبت زیادہ غلطیاں ہونگی۔
سراب سائے ہیں میرےدیار میں شاید۔
خدا کھلائےگُلِ اس ریگزار میں شاید۔
یہی ہے بارِگراں مجھ پر آج تک قائم
نہ تم، نہ دل ہےمرے اختیار میں شاید
فراقِ یار تعین ہو کچھ تری حد کا ۔
حیات یوں نہ کٹے انتظار میں شاید۔
نہ رُخ سے زلفِ پریشاں ہٹاؤ تم ایسے۔
دہک اُٹھیں گے شرارے بہار میں شاید۔
تری امید پہ رہ میں کھڑا کھڑا اب تک۔
بنا ہوں ایک ہیولا غبار میں شاید۔
تمھیں میں ہار کے آنکھیں ملاؤں اب کیسے۔
نہیں رہی سَکَت اس خاکسار میں شاید۔
خمار اپنا ہی تھا اُس گداگری کا بھی۔
چڑھا نہ پھر وہ نشہ اقتدار میں شاید
کِیا حساب وفاداریوں کا جب میں نے۔
تو آئے چند پتنگے شمار میں شاید۔
شکریہ
آخری تدوین: