سعید احمد سجاد
محفلین
الف عین
عظیم
یاسر شاہ
فلسفی
سر اصلاح کی درخواست ہے
ماتم کا ہے سماں جو ہراک پل دیار میں۔
ارمان ہیں دفن مرے اس ریگزار میں۔
پھرتا ہوں کوبکو یہی بارِ گراں لئے
رہتا ہے دل نہ آپ مرے اختیار میں۔
میں ہوں فراق یار کی حد سے نہ آشنا۔
لگتا ہے عمر بھر رہوں گا انتظار میں۔
میرے رخِ حیات سے پردہ اٹھے گا جب
پھر آگ حسرتوں کی جلے گی بہار میں۔
امّیدِ نو بہار میں یونہی کھڑے کھڑے۔
میں بن گیاہوں ایک ہیولا غبار میں۔
لہرا کے اپنا دستِ حنا کَیا ستم کِیا۔
اتنا کہاں تھا ضبط ترے خاکسار میں۔
پایا گداگری میں نشہ دو جہان کا۔
ایسا نہیں سرور کہیں اقتدار میں۔
عظیم
یاسر شاہ
فلسفی
سر اصلاح کی درخواست ہے
ماتم کا ہے سماں جو ہراک پل دیار میں۔
ارمان ہیں دفن مرے اس ریگزار میں۔
پھرتا ہوں کوبکو یہی بارِ گراں لئے
رہتا ہے دل نہ آپ مرے اختیار میں۔
میں ہوں فراق یار کی حد سے نہ آشنا۔
لگتا ہے عمر بھر رہوں گا انتظار میں۔
میرے رخِ حیات سے پردہ اٹھے گا جب
پھر آگ حسرتوں کی جلے گی بہار میں۔
امّیدِ نو بہار میں یونہی کھڑے کھڑے۔
میں بن گیاہوں ایک ہیولا غبار میں۔
لہرا کے اپنا دستِ حنا کَیا ستم کِیا۔
اتنا کہاں تھا ضبط ترے خاکسار میں۔
پایا گداگری میں نشہ دو جہان کا۔
ایسا نہیں سرور کہیں اقتدار میں۔