غزل برائے اصلاح

الف عین
عظیم
افاعیل--فعولن فعولن فعولن فعولن
-------------
جہالت جو دنیا پہ چھائی ہوئی ہے
یہ انساں کی اپنی بنائی ہوئی ہے
-------------
ہے محبوب میرا تو ناراض مجھ سے
یہ کس نے ہوائی اُڑائی ہوئی ہے
------------
تری منتظر ہے مرے دل کی محفل
یہ تیرے لئے ہی سجائی ہوئی ہے
------------
جو بیٹھا ہے کرسی پہ سارے جہاں کی
یہ دنیا اسی کی بنائی ہوئی ہے
-----------
وہی دے رہا ہے مجھے نعمتیں سب
جبیں اس کے آگے جھکائی ہوئی ہے
--------------
ملا ہے سکوں جو کیا یاد رب کو
مرے دل کی کچھ تو صفائی ہوئی ہے
--------------------
ترے دل میں ارشد محبّت خدا کی
ہمیشہ سے ایسے سمائی ہوئی ہے
----------------
 

عظیم

محفلین
جہالت جو دنیا پہ چھائی ہوئی ہے
یہ انساں کی اپنی بنائی ہوئی ہے
-------------'اپنی ہی لائی' زیادہ بہتر معلوم ہو رہا ہے

ہے محبوب میرا تو ناراض مجھ سے
یہ کس نے ہوائی اُڑائی ہوئی ہے
------------ان دونوں مصرعوں کا آپس میں ربط کمزور ہے
خاص طور پر پہلا مصرع بیان کے اعتبار سے نامکمل لگ رہا ہے

تری منتظر ہے مرے دل کی محفل
یہ تیرے لئے ہی سجائی ہوئی ہے
------------
جو بیٹھا ہے کرسی پہ سارے جہاں کی
یہ دنیا اسی کی بنائی ہوئی ہے
-----------یہ دونوں اشعار درست ہیں

وہی دے رہا ہے مجھے نعمتیں سب
جبیں اس کے آگے جھکائی ہوئی ہے
--------------وہی بخشتا ہے....
'جبیں جس کے آگے' کیسا رہے گا؟

ملا ہے سکوں جو کیا یاد رب کو
مرے دل کی کچھ تو صفائی ہوئی ہے
--------------------جو اور تو طویل کھنچ رہے ہیں جس کی وجہ سے روانی میں کمی آتی ہے
ملا ہے سکوں جب کیا یاد رب کو
مرے دل کی اب کچھ صفائی ہوئی ہے

ترے دل میں ارشد محبّت خدا کی
ہمیشہ سے ایسے سمائی ہوئی ہے
---------------'ایسے ہی' نہیں ہونا چاہیے تھا؟ یا 'یونہی' بہتر رہے گا
اور پہلے مصرع میں بھی شاید 'کیا' کی ضرورت ہے
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ عظیم میری طرح ہی اصلاح کر رہے ہیں اس لیے
میں متفق کا جھنڈا لگا دیتا ہوں ۔ اس سے میرا مکمل اتفاق سمجھا جائے
 
عظیم
الف عین
اصلاح کے بعد دوبارا
---------
جہالت جو دنیا پہ چھائی ہوئی ہے
یہ انساں کی اپنی ہی لائی ہوئی ہے
-------------
جو محبوب میرا ہے ناراض مجھ سے
یہ سازش کسی کی بنائی ہوئی ہے
------------ یا ---
مرا یار ناراض ہے آج مجھ سے
یہ تیلی کسی کی لگائی ہوئی ہے
--------------------
تری منتظر ہے مرے دل کی محفل
یہ تیرے لئے ہی سجائی ہوئی ہے
------------
جو بیٹھا ہے کرسی پہ سارے جہاں کی
یہ دنیا اسی کی بنائی ہوئی ہے
-----------
وہی بخشتا ہے مجھے نعمتیں سب
جبیں جس کے آگے جھکائی ہوئی ہے
--------------
ملا ہے سکوں جب کیا یاد رب کو
مرے دل کی اب کچھ صفائی ہوئی ہے
--------------------
کیا دل میں ارشد محبّت خدا کی
ہمیشہ سے یونہی سمائی ہوئی ہے
------------
 

عظیم

محفلین
دوسرے شعر میں سازش کے ساتھ 'رچائی' مناسب لگ رہا ہے اور جو اس کے متبادل کے طور پر شعر ہے وہ پسند نہیں آیا
اس کے علاوہ جن اشعار کے دوسرے مصرعے 'یہ' سے شروع ہو رہے ہیں ان کے درمیان تھوڑا فاصلہ رکھ لیں۔ مطلب اشعار کی ترتیب آگے پیچھے کر لیں
مقطع کا پہلا مصرع بحر میں نہیں ہے
'کیا' کو صرف 'کا' تقطیع کرنا ہو گا
 
عظیم
محبّت خدا کی یہ کیا دل میں ارشد
ہمیشہ سے یوں ہی سمائی ہوئی ہے
-----------
باقی تبدیلیاں بھی نوٹ کر لی ہیں ۔ اب ساری غزل دوبارہ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے شائد۔
 

عظیم

محفلین
عظیم
محبّت خدا کی یہ کیا دل میں ارشد
ہمیشہ سے یوں ہی سمائی ہوئی ہے
-----------
باقی تبدیلیاں بھی نوٹ کر لی ہیں ۔ اب ساری غزل دوبارہ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے شائد۔
'یہ' بھرتی کا لگ رہا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ 'کیا' ہی استعمال کیا جائے بس کسی طرح سوالیہ تاثر پیدا ہو جائے پہلے مصرع میں
اگر شعر بھی دوبارہ کہنا پڑے تو کوئی حرج نہیں
میرے بھی ذہن میں اس وقت کچھ نہیں آ رہا
 
عظیم
ایک بار پھر
-----------------
کیا جو وعدہ وفا کروں گا
میں حقِ الفت ادا کروں گا
-------------
یہ دل تو تیرا ہی ہو گیا ہے
تری رضا میں جیا کروں گا
----------------
خدا تجھے بھی وفا سکھائے
میں تیری خاطر دعا کروں گا
----------
تری یہ آنکھیں جو کہہ رہی ہیں
پکار ان کی سنا کروں گا
-----------
نبھا رہا ہوں میں اپنا وعدہ
کہ دکھ نہ تجھ کو دیا کروں گا
-------
جہاں کو چھوڑا تجھے ہے پایا
میں قدر تیری سدا کروں گا
------------
وفا کی خاطر میں جاں بھی دوں گا
وفا کا وعدہ وفا کروں گا
--------
تجھے بھلانا نہیں ہے ممکن
میں یاد تجھ کو کیا کروں گا
------------
یہ بات ارشد کی یاد رکھنا
کبھی نہ دھوکہ دیا کروں گا
----------
 

عظیم

محفلین
کیا جو وعدہ وفا کروں گا
میں حقِ الفت ادا کروں گا
------------اس غزل کی لڑی ہی بدل گئی ہے
'کیا جو وعدہ' اب دیکھنے پر ٹھیک نہیں لگ رہا۔ ہر ایک وعدہ' کر سکتے ہیں

یہ دل تو تیرا ہی ہو گیا ہے
تری رضا میں جیا کروں گا
----------------دو لخت

خدا تجھے بھی وفا سکھائے
میں تیری خاطر دعا کروں گا
----------درست

تری یہ آنکھیں جو کہہ رہی ہیں
پکار ان کی سنا کروں گا
-----------یہ تیری آنکھیں....
'جو کہہ رہی ہیں' سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو بات کہہ رہی ہیں آنکھیں وہ معلوم ہے تو دوسرا مصرع کچھ ساتھ نہیں دے رہا
۔۔ میں روز اس کو سنا کروں گا
شاید بہتر ہو

نبھا رہا ہوں میں اپنا وعدہ
کہ دکھ نہ تجھ کو دیا کروں گا
-------یہ بھی درست

جہاں کو چھوڑا تجھے ہے پایا
میں قدر تیری سدا کروں گا
------------پہلا مصرع رواں نہیں ۔ کسی اور طرح کہنے کی کوشش کریں مثلا
جہاں کو چھوڑا تو تجھ کو پایا
۔۔اور دوسرے مصرع میں 'سدا' کی جگہ 'کیا' بہتر ہو گا

وفا کی خاطر میں جاں بھی دوں گا
وفا کا وعدہ وفا کروں گا
--------دوسرا مصرع، بات نہیں بنی

تجھے بھلانا نہیں ہے ممکن
میں یاد تجھ کو کیا کروں گا
------------ٹھیک ہے

یہ بات ارشد کی یاد رکھنا
کبھی نہ دھوکہ دیا کروں گا
----------کہ میں نہ دھوکے دیا کروں گا
یا اس سے ملتا جلتا کچھ اور
 
Top