غزل برائے اصلاح

الف عین
عظیم
----------------------
افاعیل ---مفاعلاتن مفاعلاتن
------------
جو کیا تھا وعدہ وفا کروں گا
میں حقِ الفت ادا کروں گا
-------------
خدا تجھے بھی وفا سکھائے
ترے لئے میں دعا کروں گا
----------
نبھا رہا ہوں میں عہد اپنا
کہ دکھ نہ تجھ کو دیا کروں گا
-------
وفا میں جاں بھی میں دوں گا اپنی
میں دل بھی تجھ پر فدا کروں گا
----------
اگر بھلایا وفا کو میری
میں خود کو تجھ سے جدا کروں گا
---------
یہی تھا تجھ سے یہ عہد میرا
میں پیار تجھ کو دیا کروں گا
---------------
اگر ہے ارشد سے پیار تجھ کو
کہو میں تجھ سے وفا کروں گا
-------------
 

عظیم

محفلین
جو کیا تھا وعدہ وفا کروں گا
میں حقِ الفت ادا کروں گا
-------------'کیا' اگر 'کرنا' والا ہے تو فعو کے وزن پر تقطیع ہو گا اور 'کیا' سوالیہ 'کا' تقطیع ہوتا ہے
کیا جو وعدہ وفا کروں گا
اور 'حق' پر شاید آپ نے تشدید سمجھی ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ تشدید کے بغیر ہے

خدا تجھے بھی وفا سکھائے
ترے لئے میں دعا کروں گا
----------دوسرا مصرع 'میں تیری خاطر دعا کروں گا' بہتر لگ رہا ہے

نبھا رہا ہوں میں عہد اپنا
کہ دکھ نہ تجھ کو دیا کروں گا
-------بہت خوب
عہد اپنا کی جگہ اپنا وعدہ پر بھی غور کریں
میرا خیال ہے کہ دوسری آپشن بہتر رہے گی

وفا میں جاں بھی میں دوں گا اپنی
میں دل بھی تجھ پر فدا کروں گا
---------وفا میں جان دینا قابل قبول نہیں لگ رہا ۔ وفا کی خاطر جان دینا اچھا رہے گا مثلاً
وفا کی خاطر میں جاں بھی دوں گا
۔۔دوسرا مصرع کچھ اور ہونا چاہیے ایک تو 'میں' دوہرایا گیا ہے دوسرا دل سے بڑی چیز 'جاں' کی بات پہلے ہو چکی ہے اب چھوٹی جچ نہیں رہی

اگر بھلایا وفا کو میری
میں خود کو تجھ سے جدا کروں گا
---------یہ تو پیار کرنے والے نہیں کرتے
وہ تو ٹھکرائے جانے پر بھی دامن نہیں چھوڑتے

یہی تھا تجھ سے یہ عہد میرا
میں پیار تجھ کو دیا کروں گا
---------------یہ شعر بھرتی کا ہو گیا ہے

اگر ہے ارشد سے پیار تجھ کو
کہو میں تجھ سے وفا کروں گا
-------------دوسرے مصرع میں کیا محبوب سے کہا جا رہا ہے کہ وہ یہ بیان دے ؟
 
عظیم
ہر ایک وعدہ وفا کروں گا
میں حقِ الفت ادا کروں گا
------------
میں دوں گا تجھ کو ہزار خوشیاں
تری رضا میں جیا کروں گا
-------------
خدا تجھے بھی وفا سکھائے
میں تیری خاطر دعا کروں گا
---------------
یہ تیری آنکھیں جو کہہ رہی ہیں
میں روز ان کو سنا کروں گا
----------
نبھا رہا ہوں میں اپنا وعدہ
کہ دکھ نہ تجھ کو دیا کروں گا
-------------------
جہاں کو چھوڑا تو تجھ کو پایا
میں قدر تیری کیا کروں گا
------------
وفا کی خاطر میں جاں بھی دوں گا
جفا بھی تیری سہا کروں گا
-------
تجھے بھلانا نہیں ہے ممکن
میں یاد تجھ کو کیا کروں گا
------------
یہ بات ارشد کی یاد رکھنا
تجھے نہ دھوکہ دیا کروں گا
------
 

الف عین

لائبریرین
باقی تو درست ہو گئے ہیں اشعار

وفا کی خاطر میں جاں بھی دوں گا
جفا بھی تیری سہا کروں گا
------- دونوں مصرعے گا پر ختم ہوتے ہیں جو مستحسن نہیں
میں جاں بھی دوں گا وفا کی خاطر

یہ بات ارشد کی یاد رکھنا
تجھے نہ دھوکہ دیا کروں گا
------ تعلق مضبوط نہیں بن سکا، کچھ یوں ہو تو....
یہ بات سچ کہہ رہا ہے ارشد
"تجھے..... گا"( واوین میں)
 
Top