غزل برائے اصلاح

الف عین
عظیم
-------------------------
افاعیل ---مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن
حرام کاری کا یہ ہے مطلب ، خدا کو ہم نے بُھلا دیا ہے
حساب دینا پڑے گا سب کا ، خدا نے ہم کو بتا دیا ہے
------------------
جو آگ دوزخ کی جل رہی ہے، جو دیکھتے تو کیا نہ ڈرتے
مگر ہے حکمت خدا کی اس میں،نظر سے سب کی چھپا دیا ہے
----------------
کرو گے اچھے عمل یہاں پر ،ملے گی جنّت تمہیں وہاں پر
اجر خدا سے ملے گا تم کو ، خدا نے مزدہ سنا دیا ہے
------------------
یقین محکم تھا انبیا کا ، کہا انہوں نے جو دیکھتے تھے
مشاہدہ جو وہ کر رہے تھے ، خدا نے سب کچھ دکھا دیا ہے
------------------
ملے کا تم کو اسی کا بدلہ ،جہاں میں رہ کر جو کر رہے ہو
جہاں ہماری ہے آزمائش ، خدا نے یہ بھی بتا دیا ہے
------------------یا ----
یہ زندگی تو ہے آزمائش ، خدا نے ہم کو بتا دیا ہے
--------------------
اگر ضرورت پڑی جو اس کی ، خدا کے رستے میں جان دوں گا
اسے ہی دل میں بٹھا لیا ہے ، جو اب ارادہ بنا لیا ہے
----------------
بہت ہی مشکل یہ راستہ ہے ، جہان سارا بنے گا دشمن
کرو توکّل خدا پہ ارشد ، یہ حل بھی اس نے بتا دیا ہے
--------------------
 

عظیم

محفلین
حرام کاری کا یہ ہے مطلب ، خدا کو ہم نے بُھلا دیا ہے
حساب دینا پڑے گا سب کا ، خدا نے ہم کو بتا دیا ہے
------------------درست

جو آگ دوزخ کی جل رہی ہے، جو دیکھتے تو کیا نہ ڈرتے
مگر ہے حکمت خدا کی اس میں،نظر سے سب کی چھپا دیا ہے
----------------'کیا' شاید پھر پرابلم کر رہا ہے۔ یہ 'کیا' سوالیہ ہے تو 'کا' تقطیع ہو گا
جو دیکھتے ہم تو کیا نہ ڈرتے
کیا جا سکتا ہے

کرو گے اچھے عمل یہاں پر ،ملے گی جنّت تمہیں وہاں پر
اجر خدا سے ملے گا تم کو ، خدا نے مزدہ سنا دیا ہے
------------------'اجر' جیم ساکن ہے۔ مزدہ یا مژدہ؟

یقین محکم تھا انبیا کا ، کہا انہوں نے جو دیکھتے تھے
مشاہدہ جو وہ کر رہے تھے ، خدا نے سب کچھ دکھا دیا ہے
------------------دوسرے مصرع کا دوسرا ٹکڑا پورے شعر سے الگ لگ رہا ہے
ایک تو یہ کہ یہاں بھی 'دکھا دیا تھا' نہیں ہونا چاہیے تھا؟ دوسرا 'خدا نے وہ سب' ہونا چاہیے تھا۔

ملے کا تم کو اسی کا بدلہ ،جہاں میں رہ کر جو کر رہے ہو
جہاں ہماری ہے آزمائش ، خدا نے یہ بھی بتا دیا ہے
------------------یا ----
یہ زندگی تو ہے آزمائش ، خدا نے ہم کو بتا دیا ہے
--------------------دوسرے متبادل مصرع کے ساتھ شعر درست ہے

اگر ضرورت پڑی جو اس کی ، خدا کے رستے میں جان دوں گا
اسے ہی دل میں بٹھا لیا ہے ، جو اب ارادہ بنا لیا ہے
----------------'جو اب ارادہ بنا لیا ہے' غیر متعلق لگ رہا ہے۔ اس کی جگہ اگر 'اسے ہی اپنا بنا لیا ہے' کر لیں تو میرا خیال ہے کہ درست ہو جائے گا

بہت ہی مشکل یہ راستہ ہے ، جہان سارا بنے گا دشمن
کرو توکّل خدا پہ ارشد ، یہ حل بھی اس نے بتا دیا ہے
--------------------'بہت ہی' میں 'ہی' اچھا نہیں لگ رہا۔ اور کس راستے کی بات ہو رہی ہے یہ واضح نہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ شعر دوبارہ کہہ لیں
 
عظیم بھائی آپ کی ہدایات پر عمل کر کے دوبارا لکھوں گا۔وہ لفظ مزدہ، میں جانتا ہوں (ز) پر تین نقطے ہیں ۔لیکن کیسے لکھوں مجھے بتا دیں کہ کس کی سے لکھا جائے گا
 

عظیم

محفلین
عظیم بھائی آپ کی ہدایات پر عمل کر کے دوبارا لکھوں گا۔وہ لفظ مزدہ، میں جانتا ہوں (ز) پر تین نقطے ہیں ۔لیکن کیسے لکھوں مجھے بتا دیں کہ کس کی سے لکھا جائے گا
کی کا تو مجھے بھی معلوم نہیں۔ البتہ میں 'گو کیبورڈ' استعمال کرتا ہوں اردو انسٹال کر کے!
 

الف عین

لائبریرین
مزید.....
جو آگ دوزخ کی جل رہی ہے، جو دیکھتے تو کیا نہ ڈرتے
مگر ہے حکمت خدا کی اس میں،نظر سے سب کی چھپا دیا ہے
کیا اور کِیا، پہلا لفظ سوالیہ جو 'کا' تقطیع ہو گا، فع کے وزن پر
دوسرا، کرنے کا ماضی، اس کی ی نہیں گرائی جا سکتی، فعو کے وزن پر ہے
مزید یہ کہ اس شعر میں 'چھپا دیا ہے' میں مذکر کا صیغہ ہے، نہ آگ اور نہ دوزخ مذکر ہے، کس کی طرف اشارہ ہے؟
 
الف عین
عظیم
اصلاح کے بعد دوبارا
-----------------
حرام کاری کا یہ ہے مطلب ، خدا کو ہم نے بُھلا دیا ہے
حساب دینا پڑے گا سب کا ، خدا نے ہم کو بتا دیا ہے
------------------

جو آگ دوزخ کی جل رہی ہے، جو دیکھتے ہم تو کیا نہ ڈرتے
مگر ہے اس میں خدا کی حکمت کہ ہم سے منظر چھپا دیا ہے
---------------
کرو گے اچھے عمل یہاں پر ،ملے گی جنّت تمہیں وہاں پر
جزا یہ رب سے ملے گی تم کو ، اسی نے مژدہ سنا دیا ہے
-----------
یقین محکم تھا انبیا کا ، خدا سے ان کا جو رابطہ تھا
جو ہم کبھی بھی نہ دیکھ پائیں خدا نے ان کو دکھا دیا ہے
------------
ملے کا تم کو اسی کا بدلہ ،جہاں میں رہ کر جو کر رہے ہو
یہ زندگی تو ہے آزمائش ، خدا نے ہم کو بتا دیا ہے
----------------------
اگر ضرورت پڑی جو اس کی ، خدا کے رستے میں جان دوں گا
اسے ہی دل میں بٹھا لیا ہے ، اسے ہی اپنا بنا لیا ہے
---------------
خدا کا رستہ نہیں ہے آساں ، جہان سارا بنے گا دشمن
کرو توکّل خدا پہ ارشد ، یہ حل بھی اس نے بتا دیا ہے
 

عظیم

محفلین
دوسرے شعر میں صرف 'منظر' کہنے سے بات نہیں بن رہی۔ 'وہ منظر' ہونا چاہیے تھا
۔۔یہ سب جو ہم سے..... بہتر ہو گا

پانچویں شعر کے دوسرے مصرع میں 'تو' طویل کھنچ رہا ہے۔
یہ زندگانی ہے آزمائش.... کیا جا سکتا ہے

اگلے شعر میں 'اگر' اور 'جو' دونوں آ گئے ہیں۔
اگر ضرورت پڑی کچھ اس کی....

باقی اشعار مجھے درست معلوم ہو رہے ہیں
 
عظیم
جو آگ دوزخ کی جل رہی ہے، جو دیکھتے ہم تو کیا نہ ڈرتے
مگر ہے اس میں خدا کی حکمت یہ سب جو ہم سے چھپا دیا ہے
---------------
ملے کا تم کو اسی کا بدلہ ،جہاں میں رہ کر جو کر رہے ہو
یہ زندگانی ہے آزمائش ، خدا نے ہم کو بتا دیا ہے
-------------
کبھی ضرورت پڑی جو میری ، خدا کے رستے میں جان دوں گا
اسے ہی دل میں بٹھا لیا ہے ، اسے ہی اپنا بنا لیا ہے-
 

الف عین

لائبریرین
کبھی ضرورت پڑی جو میری ، خدا کے رستے میں جان دوں گا
اسے ہی دل میں بٹھا لیا ہے ، اسے ہی اپنا بنا لیا ہے
... شعر دو لخت لگتا ہے۔ ربط کے لیے کچھ اس قسم کا ٹکڑا ہونا چاہیے کہ
یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے
 
Top