غزل برائے اصلاح

الف عین
عظیم
-------------
وارث،یاسرشاہ،فلسفی،خلیل الر حمن
-------------
افاعیلمفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
-------------
الفت کسی کی دل میں ہے پیار کی نشانی
راتیں بھی لگ رہی ہیں تب ہی تجھے سہانی
----------------
آنکھیں بھی دیکھتی ہیں گر دل کسی کو چاہے
مُڑ کر اگر وہ دیکھے تو اس کی مہربانی
-----------
ہوتا ہے پیار ایسے دیکھا ہے زندگی بھر
کرتا رہا ہوں خود بھی کہتا نہیں زبانی
----- یا---
میرا ہے تجربہ یہ کہتا نہیں زبانی
-----------
عزّت کا ہے تقاضہ کرنا نہ تم بُرائی
ورنہ پڑے گی عزّت داؤ پہ پھر لگانی
-------------
بیتے دنوں کی باتیں آتی ہیں یاد مجھ کو
اُس وقت کی ہیں باتیں جب ہم پہ تھی جوانی
-----------
کرتا نہیں ہے ارشد ہر کسی سے محبّت
پڑتی ہے جب گلے تو پڑتی ہے پھر نبھانی
 

عظیم

محفلین
الفت کسی کی دل میں ہے پیار کی نشانی
راتیں بھی لگ رہی ہیں تب ہی تجھے سہانی
----------------الفت اور پیار ایک بات ہو گی۔ تو ایک دوسرے کی نشانی کیسے بن سکتے ہیں؟
یادیں کسی کی دل... کیا جا سکتا ہے
دوسرے مصرع میں صرف 'راتیں' کہنے سے بات نہیں بن رہی۔ جدائی کی راتیں یا تنہائی کی راتیں وغیرہ ہوتا تو ٹھیک رہنا تھا

آنکھیں بھی دیکھتی ہیں گر دل کسی کو چاہے
مُڑ کر اگر وہ دیکھے تو اس کی مہربانی
-----------آنکھوں کے علاوہ کوئی اور چیز تو دیکھتی نہیں پھر 'بھی' کی ضرورت؟ پہلا مصرع دوبارہ کہہ لیں کہ دوسرا ٹکڑا بھی واضح نہیں لگ رہا۔
اور دوسرے مصرع میں 'تو' طویل کھنچا ہوا ہے

ہوتا ہے پیار ایسے دیکھا ہے زندگی بھر
کرتا رہا ہوں خود بھی کہتا نہیں زبانی
----- یا---
میرا ہے تجربہ یہ کہتا نہیں زبانی
-----------'ایسے' سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس شعر کا تعلق پچھلے شعر سے ہے تو یہ ایک قطعہ ہو گا اور پچھلے شعر سے پہلے 'ق' لکھ کر یہ بات ظاہر کرنا ہو گی
دوسرا مصرع پہلے والا ہی بہتر لگ رہا ہے

عزّت کا ہے تقاضہ کرنا نہ تم بُرائی
ورنہ پڑے گی عزّت داؤ پہ پھر لگانی
-------------یہ شعر سمجھ میں نہیں آ رہا۔ میرا خیال ہے کہ دوبارہ کہہ لیں۔ عزت لفظ بھی دوہرایا ہوا ہے

بیتے دنوں کی باتیں آتی ہیں یاد مجھ کو
اُس وقت کی ہیں باتیں جب ہم پہ تھی جوانی
-----------شتر گربہ۔ اور دوسرے مصرع میں 'باتیں' ہٹا کر کچھ اور لے آئیں

کرتا نہیں ہے ارشد ہر کسی سے محبّت
پڑتی ہے جب گلے تو پڑتی ہے پھر نبھانی
۔۔پہلا مصرع بحر سے خارج یا کچھ ٹائپ نہیں ہوا۔ 'گلے تو' اچھا نہیں لگ رہا۔ اور 'پڑتی' ایک ہی مصرع میں دو بار آ گیا ہے۔
کرتا نہیں ہے ارشد اس واسطے محبت
ہو جائے جب کسی سے، پڑتی ہے تب نبھانی
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں عظیم کا مشورہ... یادیں کسی کی دل میں.... بھی غلط ہے ۔ اس صورت میں 'ہیں پیار کی نشانیاں' سے مکمل ہو گا جو زمین میں نہیں
 
الف عین
------
تبدیل شدہ
------------
دل میں طلب کسی کی ہے پیار کی نشانی
ہوتی شروع ہے ایسے پیار کی کہانی
------------
آنکھیں بھی ڈھونڈتی ہیں گر دل کسی کو چاہے
گر پیار سے وہ دیکھے کرتا ہے مہربانی
-----------یا ----
گر پیار سے وہ دیکھے اس کی ہے مہربانی
-------------
ہوتی ہے اس طرح ہی الفت کی ابتدا بس
کرتا رہا ہوں خود بھی کہتا نہیں زبانی
----------
عزّت کرو ہمیشہ ہر آدمی کی دل سے
ورنہ پڑے گی عزّت داؤ پہ پھر لگانی
-------------
بیتے دنوں کی باتیں آتی ہیں یاد مجھ کو
اُس وقت کے ہیں قصّے جب ہم پہ تھی جوانی
------------
کرتا نہیں ہے ارشد اس واسطے محبت
ہو جائے جب کسی سے، پڑتی ہے تب نبھانی
--------------یا --
کرتا ہے اب بھی ارشد باتیں تری زمانہ
بھولے نہیں ہیں تیرے وہ عشق کی کہانی
 

الف عین

لائبریرین
آخری شعر اور مقطع ( دونوں متبادل ) درست ہو گئے ہیں لیکن پہلے کے سارے اشعار میں اب بھی وہی اغلاط ہیں یا شعر واضح نہیں
 
الف عین
-----------
ایک بار پھر
--------------
دل دیکھنے کو ترسے ہے پیار کی نشانی
آنکھیں بھی کہہ رہی ہوں تیری یہی کہانی
------------
پہلی نظر میں تیرا دل جھوم جھوم جائے
ہوتی شروع ہے ایسے پیار کی کہانی
-------------
ملتے ہیں لوگ لاکھوں ہر روز راستے میں
باتیں تو ہر کسی کی لگتی نہیں سہانی
----------
عزّت کرو ہمیشہ ہر آدمی کی دل سے
عزّت ملے گی تم کو ، یہ بات ہے سیانی
-------------
اپنی کرو حفاظت سب کی ہے یہ ضرورت
آتی نہیں ہے پھر سے یہ لوٹ کر جوانی
---------------
بیتے دنوں کی باتیں آتی ہیں یاد مجھ کو
اُس وقت کے ہیں قصّے جب ہم پہ تھی جوانی
------------
کرتا نہیں ہے ارشد اس واسطے محبت
ہو جائے جب کسی سے، پڑتی ہے تب نبھانی
--------------یا --
کرتا ہے اب بھی ارشد باتیں تری زمانہ
بھولے نہیں ہیں تیرے وہ عشق کی کہانی
 
Top