غزل برائے اصلاح

الف عین
عظیم، وارث فلسفی،خلیل الرحمن،دیگر
----------------
افاعیل---مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن
----------------
سبھی خیالوں پہ چھا گیا ہے ، خیال تیرا جو آ رہا ہے
خیال تیرا حسیں ہے اتنا ، کہ دل کو میرے لبھا رہا ہے
-------------
سنا رہا ہے وفا کی باتیں ، کبھی جو ہم میں یہ سلسلے تھے
جو حسرتیں سو گئی تھیں دل میں ، انہیں یہ پھر سے جگا رہا ہے
-------------
وہ پھر سے جوڑیں گے سلسلے ، جو وفا کے ہم میں رہے نہیں ہیں
خیال تیرا تو آ کے مجھ کو ، وہ پھر سے رستہ دکھا رہا ہے
--------------
تجھے شکایت ہے جو بھی مجھ سے ، میں بات تیری ہی مان لوں گا
گلہ بھلانے کا راستہ بھی ، خیال تیرا بتا رہا ہے
-------------
بھلا نہ پایا کبھی بھی تجھ کو، تری ہی یادیں ستا رہی ہیں
خیال مجھ کو جو آ رہا ہے، وہ پھر سے تیرا بنا رہا ہے
-------------
بھلا کے ارشد کو سکھ نہ پایا ، میں جانتا ہوں تری کہانی
تجھے ضرورت ہے اب بھی میری ، یہ وقت تجھ کو بتا رہا ہے
-----------------
 

عظیم

محفلین
سبھی خیالوں پہ چھا گیا ہے ، خیال تیرا جو آ رہا ہے
خیال تیرا حسیں ہے اتنا ، کہ دل کو میرے لبھا رہا ہے
-------------دوسرے مصرع میں 'خیال' کے دوہرائے جانے سے بچیں۔

سنا رہا ہے وفا کی باتیں ، کبھی جو ہم میں یہ سلسلے تھے
جو حسرتیں سو گئی تھیں دل میں ، انہیں یہ پھر سے جگا رہا ہے
-------------'ہم میں' میں میم کی وجہ سے تنافر پیدا ہو رہا ہے
وفا کی باتیں اور یہ سلسلے میں ربط کی سمجھ نہیں آتی

وہ پھر سے جوڑیں گے سلسلے ، جو وفا کے ہم میں رہے نہیں ہیں
خیال تیرا تو آ کے مجھ کو ، وہ پھر سے رستہ دکھا رہا ہے
--------------میرا خیال ہے کہ کوما 'جو' کے بعد ہونا چاہیے تھا۔ یہاں بھی 'ہم میں' میں تنافر آ گیا ہے
وہ سلسلے جوڑ لیں گے پھر سے، محبتوں کے، جو اب نہیں ہیں
شاید بہتر ہو
دوسرے مصرع میں 'خیال' کی جگہ 'یاد' بھی لایا جا سکتا ہے۔ بلکہ دوسرا مصرع دوبارہ کہہ لیں

تجھے شکایت ہے جو بھی مجھ سے ، میں بات تیری ہی مان لوں گا
گلہ بھلانے کا راستہ بھی ، خیال تیرا بتا رہا ہے
-------------وہ بات میں تیری مان لوں گا، کر لیں تو 'بات تیری' میں جو تنافر ہے اس سے بچا جا سکتا ہے
دوسرا مصرع (خاص طور پر پہلا ٹکڑا) واضح نہیں

بھلا نہ پایا کبھی بھی تجھ کو، تری ہی یادیں ستا رہی ہیں
خیال مجھ کو جو آ رہا ہے، وہ پھر سے تیرا بنا رہا ہے
-------------'تری ہی یادیں' میں 'ہی' اضافی لگ رہا ہے۔
سو تیری یادیں.... کیا جا سکتا ہے
اور دوسرے مصرع میں کیا خیال آ رہا ہے اس کی بھی وضاحت کریں
یعنی۔ خیال تیرا جو آ رہا ہے۔

بھلا کے ارشد کو سکھ نہ پایا ، میں جانتا ہوں تری کہانی
تجھے ضرورت ہے اب بھی میری ، یہ وقت تجھ کو بتا رہا ہے
-----------------یہ شعر درست ہے
 
عظیم
----
ایک بار پھر
------------
سبھی خیالوں پہ چھا گیا ہے ، خیال تیرا جو آ رہا ہے
ترا تصوّر حسیں ہے اتنا ، کہ دل کو میرے لبھا رہا ہے
-----------------
جو مل کے ہم نے کئے تھے وعدے ، میں بھول سکتا نہیں ہوں ان کو
جو حسرتیں سو گئی تھیں دل میں ، انہیں یہ پھر سے جگا رہا ہے
------------- یا ------
میں بھول سکتا نہیں ہوں ان کو ، وفا کے ہم میں جو سلسلے تھے(وہ سلسلے جوڑ لیں گے پھر سے، محبتوں کے، جو اب نہیں ہیں)
چھپے ہوئے تھے جو دل میں جذبے ، انہیں وہ پھر سے جگا رہا ہے
---------------------------
وہ پھر سے جوڑیں وفا کا بندھن ، رہا ہے پہلے جو اب نہیں ہے
یہی تو آ کر خیال تیرا ، وہ پھر سے رستہ دکھا رہا ہے
------------
تجھے شکایت ہے جو بھی مجھ سے ، وہ بات میں تیری مان لوں گا
نہیں رہے گی تجھے شکایت ، سمجھ میں رستہ یہ آ رہا ہے
-------------------
بھلا نہ پایا کبھی بھی تجھ کو، سو تیری یادیں ستا رہی ہیں
یہ دل میں آ کر خیال تیرا ،تجھے ہی میرا بنا رہا ہے
------------
بھلا کے ارشد کو سکھ نہ پایا ، میں جانتا ہوں تری کہانی
تجھے ضرورت ہے اب بھی میری ، یہ وقت تجھ کو بتا رہا ہے
 

عظیم

محفلین
سبھی خیالوں پہ چھا گیا ہے ، خیال تیرا جو آ رہا ہے
ترا تصوّر حسیں ہے اتنا ، کہ دل کو میرے لبھا رہا ہے
-----------------'سبھی خیالوں پہ چھا گیا ہے' سے مطمئن نہیں ہوں۔ درست تو لگ رہا ہے لیکن دل کہہ رہا ہے کہ 'سبھی خیالوں پہ چھا رہا ہے' ہونا چاہیے

جو مل کے ہم نے کئے تھے وعدے ، میں بھول سکتا نہیں ہوں ان کو
جو حسرتیں سو گئی تھیں دل میں ، انہیں یہ پھر سے جگا رہا ہے
------------- یا ------
۔۔۔اس کے پہلے مصرع میں 'مل کے' اچھا نہیں لگ رہا۔
کبھی جو وعدے کیے تھے ہم نے... بہتر رہے گا
دوسرے مصرع میں 'سو گئیں تھی' درست لگ رہا ہے۔ اس کے علاوہ اسی مصرع کا دوسرا ٹکڑا واضح نہیں کہ کیا چیز جگا رہی ہے۔ اگر پچھلے شعر کے ساتھ ربط ہے تو میرا خیال ہے کہ یہ دو اشعار مسلسل ہوں گے یا شاید قطعہ۔

میں بھول سکتا نہیں ہوں ان کو ، وفا کے ہم میں جو سلسلے تھے(وہ سلسلے جوڑ لیں گے پھر سے، محبتوں کے، جو اب نہیں ہیں)
چھپے ہوئے تھے جو دل میں جذبے ، انہیں وہ پھر سے جگا رہا ہے
---------------------------پچھلا شعر اس سے بہتر لگ رہا ہے

وہ پھر سے جوڑیں وفا کا بندھن ، رہا ہے پہلے جو اب نہیں ہے
یہی تو آ کر خیال تیرا ، وہ پھر سے رستہ دکھا رہا ہے
------------یہ شعر دوبارہ کہنے کی ضرورت ہے۔ روانی بھی کم ہے اور الفاظ کی نشست بھی آگے پیچھے ہے، 'پھر' بھی دوہرایا گیا ہے

تجھے شکایت ہے جو بھی مجھ سے ، وہ بات میں تیری مان لوں گا
نہیں رہے گی تجھے شکایت ، سمجھ میں رستہ یہ آ رہا ہے
-------------------شکایت کو دور کرنے کے لیے کیا کیا گیا ہے اس بات کی سمجھ نہیں آتی
تجھے شکایت ہے جو بھی مجھ سے، وہ دور کرنے کا سوچتا ہوں
۔۔۔دوسرے مصرع میں کچھ ایسی بات ہو کہ جس سے ثابت ہو کہ یہ ایک رستہ ہے۔ یعنی .. تری امیدوں پہ پورا اتروں
لیکن اس میں 'پہ' بمعنی 'پر' استعمال ہوا ہے اور 'پہ پورا' میں تنافر بھی ہے

بھلا نہ پایا کبھی بھی تجھ کو، سو تیری یادیں ستا رہی ہیں
یہ دل میں آ کر خیال تیرا ،تجھے ہی میرا بنا رہا ہے
------------دوسرے مصرع میں 'یہ' بھرتی کا لگ رہا ہے اور شعر بن بھی نہیں پایا

بھلا کے ارشد کو سکھ نہ پایا ، میں جانتا ہوں تری کہانی
تجھے ضرورت ہے اب بھی میری ، یہ وقت تجھ کو بتا رہا ہے
 
عظیم
اصلاح کے بعد دوبارا
-----------------
سبھی خیالوں پہ آج میرے خیال تیرا ہی چھا رہا ہے
خیال تیرا حسیں ہے اتنا ، کہ دل کو میرے لبھا رہا ہے
-------------

کبھی جو وعدے کئے تھے ہم نے، میں بھول سکتا نہیں ہوں ان کو
جو حسرتیں دل میں سو گئی تھی تُو پھر سے ان کو جگا رہا ہے
-----------------
وفا کا بندھن وہ پھر سے جوڑیں بکھڑ چکا ہے جو ٹوٹنے سے
خیال تیرا ہی آ کے مجھ کو یہ راستہ بھی دکھا رہا ہے
------------------
تجھے شکایت ہے جو بھی مجھ سے ، وہ دور کرنے کا سوچتا ہوں
نہیں رہے گی تجھے شکایت ، سمجھ میں رستہ یہ آ رہا ہے
-------------
بھلا نہ پایا کبھی بھی تجھ کو، سو تیری یادیں ستا رہی ہیں
منا کے تجھ کو بنا لوں اپنا مری سمجھ میں یہ آ رہا ہے
-------------
منا کے تجھ کو بنا لوں اپنا یہ دل ہی مجھ کو سکھا رہا ہے
-------------
بھلا کے ارشد کو سکھ نہ پایا ، میں جانتا ہوں تری کہانی
تجھے ضرورت ہے اب بھی میری ، یہ وقت تجھ کو بتا رہا ہے
-------------
 

عظیم

محفلین
سبھی خیالوں پہ آج میرے خیال تیرا ہی چھا رہا ہے
خیال تیرا حسیں ہے اتنا ، کہ دل کو میرے لبھا رہا ہے
-------------
سبھی خیالوں پہ چھا رہا ہے، خیال تیرا جو آ رہا ہے
ترا تصور حسیں ہے اتنا، کہ دل کو میرے لبھا رہا ہے
۔۔اس طرح بہتر رہے گا

کبھی جو وعدے کئے تھے ہم نے، میں بھول سکتا نہیں ہوں ان کو
جو حسرتیں دل میں سو گئی تھی تُو پھر سے ان کو جگا رہا ہے
-----------------صرف دوسرے مصرع میں میرا خیال ہے کہ 'تھیں' ہونا چاہیے تھا

وفا کا بندھن وہ پھر سے جوڑیں بکھڑ چکا ہے جو ٹوٹنے سے
خیال تیرا ہی آ کے مجھ کو یہ راستہ بھی دکھا رہا ہے
------------------پہلا مصرع کسی اور طرح کہیں۔

تجھے شکایت ہے جو بھی مجھ سے ، وہ دور کرنے کا سوچتا ہوں
نہیں رہے گی تجھے شکایت ، سمجھ میں رستہ یہ آ رہا ہے
-------------ابھی بھی وہی پہلے والی خامی ہے کہ شکایت کے دور کرنے کو کیا کیا گیا ہے؟

بھلا نہ پایا کبھی بھی تجھ کو، سو تیری یادیں ستا رہی ہیں
منا کے تجھ کو بنا لوں اپنا مری سمجھ میں یہ آ رہا ہے
-------------یہ ٹھیک ہے

منا کے تجھ کو بنا لوں اپنا یہ دل ہی مجھ کو سکھا رہا ہے
-------------
بھلا کے ارشد کو سکھ نہ پایا ، میں جانتا ہوں تری کہانی
تجھے ضرورت ہے اب بھی میری ، یہ وقت تجھ کو بتا رہا ہے
-------------اس کے بارے میں تو بات ہو چکی ہے
 
عظیم بھائی پہلے دونوں اشعار میں آپ کے حکم پر ہی تبدیلیاں کی تھیں
حسرتیں جمع کا صیغہ ہے اس کے ساتھ تھیں ہی آنا چاہئے لیکن آپ کی خواہش پر تھی لکھ دیا تھا
 

عظیم

محفلین
عظیم بھائی پہلے دونوں اشعار میں آپ کے حکم پر ہی تبدیلیاں کی تھیں
حسرتیں جمع کا صیغہ ہے اس کے ساتھ تھیں ہی آنا چاہئے لیکن آپ کی خواہش پر تھی لکھ دیا تھا
اس معاملے میں مَیں خود بھی کنفیوژ ہو جاتا ہوں
دراصل میں نے 'گئیں' کے ساتھ 'تھی' کا مشورہ دیا تھا
 
Top