محمد فائق
محفلین
پاسِ دنیا ہے اب کہاں دل میں
آگئیں بے نیاز یاں دل میں
اپنی باتوں کا بھی یقیں نہ رہا
ایسے اترا ترا بیاں دل میں
میں نے سب کا گلا دبا ڈالا
کوئی حسرت نہیں جواں دل میں
دن ہوئے اعتماد کو گزرے
رہے گیا ہے فقط گماں دل میں
ہوچکا کل دیارِ دل ویران
نہیں باقی کوئی مکاں دل میں
آئے دن کیفیت بدلتا ہے
کیسی کیسی ہیں خوبیاں دل میں
پائداری چلی گئی آخر
بس گئیں بے ثباتیاں دل میں
کیسے ہوتا نہ قتل خوشیوں کا
تھا کوئی گوشہ-اماں دل میں؟
ایک یادِ بہار تک بھی نہیں
چھائی ہے اس طرح خزاں دل میں
ٹوٹتا ہے وہاں کسی کا دل
درد ہوتا ہے کیوں یہاں دل میں
بجھتی رہتی ہے شمعِ دل فائق
اٹھتا رہتا ہے بس دھواں دل میں
الف عین سر
آگئیں بے نیاز یاں دل میں
اپنی باتوں کا بھی یقیں نہ رہا
ایسے اترا ترا بیاں دل میں
میں نے سب کا گلا دبا ڈالا
کوئی حسرت نہیں جواں دل میں
دن ہوئے اعتماد کو گزرے
رہے گیا ہے فقط گماں دل میں
ہوچکا کل دیارِ دل ویران
نہیں باقی کوئی مکاں دل میں
آئے دن کیفیت بدلتا ہے
کیسی کیسی ہیں خوبیاں دل میں
پائداری چلی گئی آخر
بس گئیں بے ثباتیاں دل میں
کیسے ہوتا نہ قتل خوشیوں کا
تھا کوئی گوشہ-اماں دل میں؟
ایک یادِ بہار تک بھی نہیں
چھائی ہے اس طرح خزاں دل میں
ٹوٹتا ہے وہاں کسی کا دل
درد ہوتا ہے کیوں یہاں دل میں
بجھتی رہتی ہے شمعِ دل فائق
اٹھتا رہتا ہے بس دھواں دل میں
الف عین سر