غزل برائے اصلاح

محمد فائق

محفلین
پاسِ دنیا ہے اب کہاں دل میں
آگئیں بے نیاز یاں دل میں

اپنی باتوں کا بھی یقیں نہ رہا
ایسے اترا ترا بیاں دل میں

میں نے سب کا گلا دبا ڈالا
کوئی حسرت نہیں جواں دل میں

دن ہوئے اعتماد کو گزرے
رہے گیا ہے فقط گماں دل میں

ہوچکا کل دیارِ دل ویران
نہیں باقی کوئی مکاں دل میں

آئے دن کیفیت بدلتا ہے
کیسی کیسی ہیں خوبیاں دل میں

پائداری چلی گئی آخر
بس گئیں بے ثباتیاں دل میں

کیسے ہوتا نہ قتل خوشیوں کا
تھا کوئی گوشہ-اماں دل میں؟

ایک یادِ بہار تک بھی نہیں
چھائی ہے اس طرح خزاں دل میں

ٹوٹتا ہے وہاں کسی کا دل
درد ہوتا ہے کیوں یہاں دل میں

بجھتی رہتی ہے شمعِ دل فائق
اٹھتا رہتا ہے بس دھواں دل میں

الف عین سر
 

الف عین

لائبریرین
پچھلا ٹیگ مجھے نہیں ملا!
پاسِ دنیا ہے اب کہاں دل میں
آگئیں بے نیاز یاں دل میں
... ردیف کا غلط استعمال، دلوں میں ہونا چاہیے، دل میں نہیں

اپنی باتوں کا بھی یقیں نہ رہا
ایسے اترا ترا بیاں دل میں
... درست

میں نے سب کا گلا دبا ڈالا
کوئی حسرت نہیں جواں دل میں
... درست

دن ہوئے اعتماد کو گزرے
رہے گیا ہے فقط گماں دل میں
... اعتماد کو گزرے واضح نہیں. شاید 'ختم ہوئے' سے زیادہ واضح ہو جائے

ہوچکا کل دیارِ دل ویران
نہیں باقی کوئی مکاں دل میں
... ٹھیک

آئے دن کیفیت بدلتا ہے
کیسی کیسی ہیں خوبیاں دل میں
... ٹھیک

پائداری چلی گئی آخر
بس گئیں بے ثباتیاں دل میں
... دل میں پائیداری یا بے ثباتی سے کیا مراد ہے؟

کیسے ہوتا نہ قتل خوشیوں کا
تھا کوئی گوشہ-اماں دل میں؟
..
درست

ایک یادِ بہار تک بھی نہیں
چھائی ہے اس طرح خزاں دل میں
... ایک باد بہار یا باد بہار کا ایک جھونکا؟ ایک کی جگہ 'کوئی' شاید بہتر ہو

ٹوٹتا ہے وہاں کسی کا دل
درد ہوتا ہے کیوں یہاں دل میں
... درست

بجھتی رہتی ہے شمعِ دل فائق
اٹھتا رہتا ہے بس دھواں دل میں
... درست، بجھتی جاتی ہے.. سے کیا کچھ بہتری محسوس ہوتی ہے؟
 

محمد فائق

محفلین
رہنمائی کے لیے شکریہ سر،
مطلع کے دونوں مصرعوں میں ردیف کا استعمال غلط ہے یا صرف دوسرے مصرع میں؟
الف عین سر
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
واحد دل سے مطلب ہے کہ شاعر صرف اپنی بات کر رہا ہے اس لحاظ سے یہ مصرع درست ہے لیکن دوسرے میں بے نیازیاں سے لگتا ہے کہ عمومی بات کی جا رہی ہے تمام دنیا والوں کے دلوں کی۔ صرف یہ مصرع بدل کر مفہوم بدل دو
 

محمد فائق

محفلین
واحد دل سے مطلب ہے کہ شاعر صرف اپنی بات کر رہا ہے اس لحاظ سے یہ مصرع درست ہے لیکن دوسرے میں بے نیازیاں سے لگتا ہے کہ عمومی بات کی جا رہی ہے تمام دنیا والوں کے دلوں کی۔ صرف یہ مصرع بدل کر مفہوم بدل دو
پھر ایک بار رہنمائی کا شکریہ سر دیکھیے گا اب غزل درست ہے یا نہیں


چار سو غم کا ہے سماں دل میں
سارا منظر ہے خونچکاں دل میں

آگئ بے نیازی آخر کار
پاسِ دنیا ہے اب کہاں دل میں

میں نے سب کا گلا دبا ڈالا
کوئی حسرت نہیں جواں دل میں

ہوچکا کل دیارِ دل ویران
نہیں باقی کوئی مکاں دل میں

دن ہوئے اعتماد ختم ہوئے
رہے گیا ہے فقط گماں دل میں

کوئی یادِ بہار تک بھی نہیں
چھائی ہے اس طرح خزاں دل

کیسے ہوتا نہ قتل خوشیوں کا
تھا کوئی گوشہ-اماں دل میں؟

اپنی باتوں کا بھی یقیں نہ رہا
ایسے اترا ترا بیاں دل میں

آئے دن کیفیت بدلتا ہے
کیسی کیسی ہیں خوبیاں دل میں

ٹوٹتا ہے وہاں کسی کا دل
درد ہوتا ہے کیوں یہاں دل میں

بجھتی جاتی ہے شمعِ دل فائق
اٹھتا رہتا ہے بس دھواں دل میں

الف عین سر
 

الف عین

لائبریرین
دن ہوئے اعتماد ختم ہوئے
رہے گیا ہے فقط گماں دل میں
رہے گیا؟ اسے شاید رہ گیا ہی پڑھا تھا پچھلی بار بھی۔ یہ ٹائپو ہے یا واقعی یہی لفظ استعمال کیا گیا ہے
 
Top