سعید احمد سجاد
محفلین
الف عین
یاسر شاہ
عظیم
تابش صدیقی
فلسفی
غزل برائےاصلاح و تنقید
اساتذہ اکرام سے اصلاح کی گذارش ہے
اب درد کی شدت کو سمیٹا نہیں جاتا۔
اس حال میں یوں خود کو بھی دیکھا نہیں جاتا۔
وہ کون ہے جوپار کرے عشق سمندر۔
گِھر جائے تو گرداب سے نکلا نہیں جاتا۔
جس شہر کی مٹی میں نہ اپنوں کی ہو خوشبو۔
اُس منزلِ اغیار پہ ٹھہرا نہیں جاتا۔
جلووں سے ترے سب گرے آغوشِ اجل میں۔
یوں عشوہ گری سے بھی تو سنورا نہیں جاتا۔
سیکھو کوئی آدابِ محبت کے تقاضے۔
رہ چلتے ہوئے کسی کو پرکھا نہیں جاتا
ہے قوسِ قزع تیری اداؤں کے سبھی رنگ۔
غم یہ ہے کہ ہر رنگ سنبھالا نہیں جاتا۔
جب وسعتِ افلاکِ خیالات میں جاؤں۔
پھر رفعتِ پرواز سے اترا نہیں جاتا۔
برباد ہوں سجاد میں ایسے،مرے گھر سے۔
آباد نگر میں کوئی رستہ نہیں جاتا۔
ہر طور زمانے کے اشاروں پہ کِیا رقص۔
سجاد شکستہ ہوں کہ سنبھلا نہیں جاتا۔
یاسر شاہ
عظیم
تابش صدیقی
فلسفی
غزل برائےاصلاح و تنقید
اساتذہ اکرام سے اصلاح کی گذارش ہے
اب درد کی شدت کو سمیٹا نہیں جاتا۔
اس حال میں یوں خود کو بھی دیکھا نہیں جاتا۔
وہ کون ہے جوپار کرے عشق سمندر۔
گِھر جائے تو گرداب سے نکلا نہیں جاتا۔
جس شہر کی مٹی میں نہ اپنوں کی ہو خوشبو۔
اُس منزلِ اغیار پہ ٹھہرا نہیں جاتا۔
جلووں سے ترے سب گرے آغوشِ اجل میں۔
یوں عشوہ گری سے بھی تو سنورا نہیں جاتا۔
سیکھو کوئی آدابِ محبت کے تقاضے۔
رہ چلتے ہوئے کسی کو پرکھا نہیں جاتا
ہے قوسِ قزع تیری اداؤں کے سبھی رنگ۔
غم یہ ہے کہ ہر رنگ سنبھالا نہیں جاتا۔
جب وسعتِ افلاکِ خیالات میں جاؤں۔
پھر رفعتِ پرواز سے اترا نہیں جاتا۔
برباد ہوں سجاد میں ایسے،مرے گھر سے۔
آباد نگر میں کوئی رستہ نہیں جاتا۔
ہر طور زمانے کے اشاروں پہ کِیا رقص۔
سجاد شکستہ ہوں کہ سنبھلا نہیں جاتا۔
آخری تدوین: