سعید احمد سجاد
محفلین
سر اصلاح کے لئے پیشِ خدمت ہوں اس غزل کو اصلاح کے بعد پیش کر رہا ہوں
الف عین
یاسر شاہ
ماتم کا ہے سماں جو ہر اک پل دیار میں۔
ارماں بکھر گئے تھے اِسی ریگزار میں۔
راتیں ہیں بے سکوں مری سوچیں ہیں منتشر۔
ہے اضطراب کیسا دلِ خاکسار میں۔
پھرتا ہوں کوبکو یہی بارِ گراں لئے۔
بِکنا خریدنا نہیں اب اختیار میں۔
آخر فراقِ یار کی حد بھی تو ہو کوئی۔
کیا عمر بھر رہوں گا یونہی انتظار میں۔
لہرا کے اپنا دستِ حنائی غضب کِیا۔
اتنا کہاں تھا حوصلہ اس خاکسار میں۔
یوں ہی رہِیں اگر شبِ ہجراں کی کلفتیں۔
پھرآگ حسرتوں کی جلے گی بہار میں۔
پائیں جو لذتیں ترے در کی گدائی سے۔
ایسا ملا سُرور کہاں اقتدار میں
الف عین
یاسر شاہ
ماتم کا ہے سماں جو ہر اک پل دیار میں۔
ارماں بکھر گئے تھے اِسی ریگزار میں۔
راتیں ہیں بے سکوں مری سوچیں ہیں منتشر۔
ہے اضطراب کیسا دلِ خاکسار میں۔
پھرتا ہوں کوبکو یہی بارِ گراں لئے۔
بِکنا خریدنا نہیں اب اختیار میں۔
آخر فراقِ یار کی حد بھی تو ہو کوئی۔
کیا عمر بھر رہوں گا یونہی انتظار میں۔
لہرا کے اپنا دستِ حنائی غضب کِیا۔
اتنا کہاں تھا حوصلہ اس خاکسار میں۔
یوں ہی رہِیں اگر شبِ ہجراں کی کلفتیں۔
پھرآگ حسرتوں کی جلے گی بہار میں۔
پائیں جو لذتیں ترے در کی گدائی سے۔
ایسا ملا سُرور کہاں اقتدار میں