غزل برائے اصلاح

الف عین
عظیم
یاسر شاہ ، خلیل الرحمن،فلسفی
-----------
افاعیل--- مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن
------------
ملے مجھے گر جہان سارا ، تجھی پہ اُس کو نثار کر دوں
میں دے کے تجھ کو ہزار خوشیاں ، چمن میں تیرے بہار کر دوں
----------------------
وفا میں تیری جہان سارا ، بنے جو دشمن ، قبول ہے سب
تری محبّت میں جان دے کر ، ترا میں اونچا وقار کر دوں
------------------
عزیز تیری یہ دوستی ہے ، سبھی زمانے سے بڑھ کے مجھ کو
تری حفاظت کروں میں ایسے ، کہ گرد تیرے حصار کر دوں
-------------
تری محبّت جو قیمتی ہے ، مرے لئے ہر کسی سے بڑھ کر
ترے جو آئے گا راستے میں ، اسے تو میں بے وقار کر دوں
----------------
قریب آئے نہ غم تمہارے ، ہزار خوشیاں کروں نچھاور
ہو جو میسّر ، میں لا کے اس کو، ترے یمین و یُسار کر دوں
---------------------یا
مجھے ملے جو خوشی بھی ، تیرے اسے یمین و یسار کر دوں
-----------------
ملی ہے مجھ کو وفا جو تیری ، یہی تھی ساری مری ضرورت
یہی ہے بدلہ تری وفا کا ،نثار تجھ پر میں پیار کر دوں
----------------
یہ چار دن جو ہیں زندگی کے ، گزار ان کو خوشی سے ارشد
خوشی کی خاطر ہی یار پر تو ، ہزار خوشیاں نثار کر دوں
 

الف عین

لائبریرین
ملے مجھے گر جہان سارا ، تجھی پہ اُس کو نثار کر دوں
میں دے کے تجھ کو ہزار خوشیاں ، چمن میں تیرے بہار کر دوں
---------------------- درست، اچھا شعر ہے

وفا میں تیری جہان سارا ، بنے جو دشمن ، قبول ہے سب
تری محبّت میں جان دے کر ، ترا میں اونچا وقار کر دوں
------------------ وفا میں دشمن کس طرح بنے گا کوئی؟ پہلے مصرع میں الفاظ اور ان کی ترتیب بدل کر دیکھیں، شاید بہتری کی کوئی صورت ہو
جیسے
قبول ہے مجھ کو تیری چاہت میں ساری دنیا بنے جو دشمن
تمہارے جان دینے سے محبوب کا وقار بلند ہونا بھی عجیب ہے،

عزیز تیری یہ دوستی ہے ، سبھی زمانے سے بڑھ کے مجھ کو
تری حفاظت کروں میں ایسے ، کہ گرد تیرے حصار کر دوں
------------- درست

تری محبّت جو قیمتی ہے ، مرے لئے ہر کسی سے بڑھ کر
ترے جو آئے گا راستے میں ، اسے تو میں بے وقار کر دوں
---------------- بڑھ کر اس شعر میں بھی استعمال ہو رہا ہے مفہوم بھی عجیب ہے
جو آئے گا تیرے راستے میں.... رواں نہیں لگتا؟

قریب آئے نہ غم تمہارے ، ہزار خوشیاں کروں نچھاور
ہو جو میسّر ، میں لا کے اس کو، ترے یمین و یُسار کر دوں
---------------------یا
مجھے ملے جو خوشی بھی ، تیرے اسے یمین و یسار کر دوں
----------------- پہلا مصرع دو مختلف باتیں ہیں، کس پر نچھاور؟ اس کا بھی ذکر نہیں
دوسرا مصرع یوں بہتر ہو سکتا ہے
ملے مسرت مجھے جو کوئی، ترے یمین و.......

ملی ہے مجھ کو وفا جو تیری ، یہی تھی ساری مری ضرورت
یہی ہے بدلہ تری وفا کا ،نثار تجھ پر میں پیار کر دوں
---------------- ایک ہی بات بار بار نہ کیا کریں

یہ چار دن جو ہیں زندگی کے ، گزار ان کو خوشی سے ارشد
خوشی کی خاطر ہی یار پر تو ، ہزار خوشیاں نثار کر دوں
... کچھ زیادہ ہی خوش ہو گئے ہیں شاید!
دوسرا مصرع بدل دیں
 
الف عین
تبدیلیوں کے بعد دوبارا
------------------
ملے مجھے گر جہان سارا ، تجھی پہ اُس کو نثار کر دوں
میں دے کے تجھ کو ہزار خوشیاں ، چمن میں تیرے بہار کر دوں
--------------------
ملے محبّت مجھے جو تیری جہان سارا بھی چھوڑ دوں گا
تری محبّت اسی طرح سے جہاں میں با اعتبار کر دوں
------------------
عزیز تیری یہ دوستی ہے ، سبھی زمانے سے بڑھ کے مجھ کو
تری حفاظت کروں میں ایسے ، کہ گرد تیرے حصار کر دوں
------------- درست
سبھی زمانے سے قیمتی ہے مرے لئے تو تری محبّت
جو آئے گا تیرے راستے میں ، اسے تو میں بے وقار کر دوں
----------------
مری محبّت جو کم نہ ہو گی ، سدا رہے گی اسی طرح سے
ملے مسرّت مجھے جو کوئی، ترے یمین و یُسار کر دوں
-----------
مری محبّت کا ہے تقاضا ، ہزار خوشیاں میں دوں گا تجھ کو
یہی ہے بدلہ تری وفا کا ،نثار تجھ پر میں پیار کر دوں
------------
یہی تو ارشد کی آرزو تھی کسی کی الفت ملے اسے بھی
تری وفا کا یہی صلہ ہے خزاں کو تیری بہار کر دوں
-----------------
 

الف عین

لائبریرین
ملے مجھے گر جہان سارا ، تجھی پہ اُس کو نثار کر دوں
میں دے کے تجھ کو ہزار خوشیاں ، چمن میں تیرے بہار کر دوں
-------------------- درست، کہہ چکا ہوں

ملے محبّت مجھے جو تیری جہان سارا بھی چھوڑ دوں گا
تری محبّت اسی طرح سے جہاں میں با اعتبار کر دوں
------------------ با اعتبار کرنا بھی عجیب لگ رہا ہے اس کے متبادل کا کچھ سوچو۔ باقی بھرتی کے الفاظ 'تو' اور 'اسی' سے اس طرح بچا جا سکتا ہے
مجھے جو مل جائے تیری الفت، میں چھوڑ سکتا ہوں ساری دنیا
میں اس طرح سے تری.......
پہلے ٹکڑے پر غور کریں، میں پھر یہی کہوں گا کہ ہر ممکن صورت پر غور کر لیا کریں

عزیز تیری یہ دوستی ہے ، سبھی زمانے سے بڑھ کے مجھ کو
تری حفاظت کروں میں ایسے ، کہ گرد تیرے حصار کر دوں
------------- درست
... ایک بار پھر درست،

سبھی زمانے سے قیمتی ہے مرے لئے تو تری محبّت
جو آئے گا تیرے راستے میں ، اسے تو میں بے وقار کر دوں
---------------- کہہ چکا ہوں کہ مفہوم عجیب ہے، اس سے مراد بے وقار کرنے کے عمل سے ہی ہے

مری محبّت جو کم نہ ہو گی ، سدا رہے گی اسی طرح سے
ملے مسرّت مجھے جو کوئی، ترے یمین و یُسار کر دوں
-----------پہلا مصرع بے ربط ہو گیا، پچھلا ہی کچھ بہتر کرنے کی ضرورت تھی
یہی دعا تجھ کو دے رہا ہوں تجھے کوئی بھی نہ غم ستائے
شتر گربہ کی طرف دھیان نہیں گیا تھا شاید

مری محبّت کا ہے تقاضا ، ہزار خوشیاں میں دوں گا تجھ کو
یہی ہے بدلہ تری وفا کا ،نثار تجھ پر میں پیار کر دوں
------------ اس شعر کو نکال دیا جائے، پیار نثار کرنا غلط ہے

یہی تو ارشد کی آرزو تھی کسی کی الفت ملے اسے بھی
تری وفا کا یہی صلہ ہے خزاں کو تیری بہار کر دوں
----------------- ٹھیک
 
Top