غزل برائے اصلاح

الف عین
یاسر شاہ
فلسفی
عظیم
سر اصلاح کی درخواست ہے
جب بھی خوشبو تری سانسوں کی سہانی آئے۔
منجمد خون میں پھر جا کے روانی آئے
جب کھلے پھول ترے وصل کی امیدوں کے۔
شبنمی ہونٹ ترے بن کے نشانی آئے
ناتواں اس کے مجھے ہجر نے کر ڈالا ہے۔
صورتِ یار جو دیکھوں تو جوانی آئے۔
مجھ پہ اب تک ہے وہی روحِ رواں کا عالم۔
ساعتِ ہجر کو بھولوں ٗ نہ بھلانی آئے۔
اُن کی خواہش ہے تو جلتا ہوں چتا پر بھی مگر۔
شرط یہ ہے کہ اُنھیں آگ لگانی آئے ۔
ناگ بن کر مجھے ڈستا ہے کوئی سوزِ نہاں۔
جب بھی تنہائی میں اک یاد پرانی آئے۔
ربط سانسوں میں نہ دھڑکن میں تسلسل باقی۔
تُو جو آئے تو رگ و پے میں جوانی آئے۔
سلب ہے قوتِ گویائی بھی سجاد مری۔
ضبط آنسو نہ ہوں جب درد کہانی آئے
 

عظیم

محفلین
جب بھی خوشبو تری سانسوں کی سہانی آئے۔
منجمد خون میں پھر جا کے روانی آئے
۔۔۔۔۔'پھر جا کے' کی جگہ 'تب جا کے' بہتر معلوم ہو رہا ہے

جب کھلے پھول ترے وصل کی امیدوں کے۔
شبنمی ہونٹ ترے بن کے نشانی آئے
۔۔۔۔۔پہلا مصرع بحر میں نہیں
ہونٹ نشانی بن کر کہاں آئے۔ اس کی بھی وضاحت ہونی
چاہیے

ناتواں اس کے مجھے ہجر نے کر ڈالا ہے۔
صورتِ یار جو دیکھوں تو جوانی آئے۔
۔۔۔۔ناتواں کے ساتھ جوانی ٹھیک نہیں رہے گا۔

مجھ پہ اب تک ہے وہی روحِ رواں کا عالم۔
ساعتِ ہجر کو بھولوں ٗ نہ بھلانی آئے۔
۔۔۔یہ ٹھیک لگ رہا ہے

اُن کی خواہش ہے تو جلتا ہوں چتا پر بھی مگر۔
شرط یہ ہے کہ اُنھیں آگ لگانی آئے ۔
۔۔۔۔یہ بھی درست معلوم ہو رہا ہے

ناگ بن کر مجھے ڈستا ہے کوئی سوزِ نہاں۔
جب بھی تنہائی میں اک یاد پرانی آئے۔
۔۔۔۔۔اچھا شعر ہے

ربط سانسوں میں نہ دھڑکن میں تسلسل باقی۔
تُو جو آئے تو رگ و پے میں جوانی آئے۔
۔۔۔درست معلوم ہو رہا ہے

سلب ہے قوتِ گویائی بھی سجاد مری۔
ضبط آنسو نہ ہوں جب درد کہانی آئے
۔۔۔۔۔درد کہانی،؟
 
جب بھی خوشبو تری سانسوں کی سہانی آئے۔
منجمد خون میں پھر جا کے روانی آئے
۔۔۔۔۔'پھر جا کے' کی جگہ 'تب جا کے' بہتر معلوم ہو رہا ہے

جب کھلے پھول ترے وصل کی امیدوں کے۔
شبنمی ہونٹ ترے بن کے نشانی آئے
۔۔۔۔۔پہلا مصرع بحر میں نہیں
ہونٹ نشانی بن کر کہاں آئے۔ اس کی بھی وضاحت ہونی
چاہیے

ناتواں اس کے مجھے ہجر نے کر ڈالا ہے۔
صورتِ یار جو دیکھوں تو جوانی آئے۔
۔۔۔۔ناتواں کے ساتھ جوانی ٹھیک نہیں رہے گا۔

مجھ پہ اب تک ہے وہی روحِ رواں کا عالم۔
ساعتِ ہجر کو بھولوں ٗ نہ بھلانی آئے۔
۔۔۔یہ ٹھیک لگ رہا ہے

اُن کی خواہش ہے تو جلتا ہوں چتا پر بھی مگر۔
شرط یہ ہے کہ اُنھیں آگ لگانی آئے ۔
۔۔۔۔یہ بھی درست معلوم ہو رہا ہے

ناگ بن کر مجھے ڈستا ہے کوئی سوزِ نہاں۔
جب بھی تنہائی میں اک یاد پرانی آئے۔
۔۔۔۔۔اچھا شعر ہے

ربط سانسوں میں نہ دھڑکن میں تسلسل باقی۔
تُو جو آئے تو رگ و پے میں جوانی آئے۔
۔۔۔درست معلوم ہو رہا ہے

سلب ہے قوتِ گویائی بھی سجاد مری۔
ضبط آنسو نہ ہوں جب درد کہانی آئے
۔۔۔۔۔درد کہانی،؟
عظیم بھائی امید اور امّید دونوں مستعمل ہیں
 

عظیم

محفلین
جب بھی خوشبو تری سانسوں کی سہانی آئے۔
منجمد خون میں پھر جا کے روانی آئے
۔۔۔۔۔'پھر جا کے' کی جگہ 'تب جا کے' بہتر معلوم ہو رہا ہے

جب کھلے پھول ترے وصل کی امیدوں کے۔
شبنمی ہونٹ ترے بن کے نشانی آئے
۔۔۔۔۔پہلا مصرع بحر میں نہیں
ہونٹ نشانی بن کر کہاں آئے۔ اس کی بھی وضاحت ہونی
چاہیے

ناتواں اس کے مجھے ہجر نے کر ڈالا ہے۔
صورتِ یار جو دیکھوں تو جوانی آئے۔
۔۔۔۔ناتواں کے ساتھ جوانی ٹھیک نہیں رہے گا۔

مجھ پہ اب تک ہے وہی روحِ رواں کا عالم۔
ساعتِ ہجر کو بھولوں ٗ نہ بھلانی آئے۔
۔۔۔یہ ٹھیک لگ رہا ہے

اُن کی خواہش ہے تو جلتا ہوں چتا پر بھی مگر۔
شرط یہ ہے کہ اُنھیں آگ لگانی آئے ۔
۔۔۔۔یہ بھی درست معلوم ہو رہا ہے

ناگ بن کر مجھے ڈستا ہے کوئی سوزِ نہاں۔
جب بھی تنہائی میں اک یاد پرانی آئے۔
۔۔۔۔۔اچھا شعر ہے

ربط سانسوں میں نہ دھڑکن میں تسلسل باقی۔
تُو جو آئے تو رگ و پے میں جوانی آئے۔
۔۔۔درست معلوم ہو رہا ہے

۔۔۔۔۔درد کہانی،؟
جب بھی خوشبو تری سانسوں کی سہانی آئے۔
منجمد خون میں تب جا کے روانی آئے۔
جب کھلے پھول ترے وصل کی امیدوں کے۔
شبنمی ہونٹ خیالوں میں نشانی آئے۔
ایک بے جان مجسم ہوں جدائی کے سبب
صورتِ یار جو دیکھوں تو جوانی آئے۔
سلب ہے قوتِ گویائی بھی سجاد مری۔
توڑنے ضبط کوئی درد کہانی آئے۔
عظیم بھائی اب نظر ثانی فرما دیجیے گا
 

عظیم

محفلین
ہونٹ والے شعر میں ابھی بھی یہ بات واضح نہیں کہ کس کے ہونٹ
دوسرا صرف 'نشانی کہنے سے بات مکمل نہیں ہو گی۔ بن کے نشانی آئے، کی ضرورت ہے
پھر بھی یہ کمی رہی جائے گی کہ کس بات کی نشانی بن کر آئے
تیسرے شعر کے پہلے مصرع میں 'بے جان مجسمہ' ہونا چاہیے تھا اس کے علاوہ جوانی ایسا لگ رہا ہے کہ بس قافیہ استعمال کرنا تھا۔ اس لیے کہ یہ لفظ یہاں فٹ نہیں ہو رہا
مقطع میں وہی مسئلہ ہے کہ 'درد کہانی' کی سمجھ نہیں آ رہی
 
ہونٹ والے شعر میں ابھی بھی یہ بات واضح نہیں کہ کس کے ہونٹ
دوسرا صرف 'نشانی کہنے سے بات مکمل نہیں ہو گی۔ بن کے نشانی آئے، کی ضرورت ہے
پھر بھی یہ کمی رہی جائے گی کہ کس بات کی نشانی بن کر آئے
تیسرے شعر کے پہلے مصرع میں 'بے جان مجسمہ' ہونا چاہیے تھا اس کے علاوہ جوانی ایسا لگ رہا ہے کہ بس قافیہ استعمال کرنا تھا۔ اس لیے کہ یہ لفظ یہاں فٹ نہیں ہو رہا
مقطع میں وہی مسئلہ ہے کہ 'درد کہانی' کی سمجھ نہیں آ رہی
شکریہ عظیم بھائی
 
Top