سعید احمد سجاد
محفلین
الف عین
یاسر شاہ
فلسفی
عظیم
سر اصلاح کی درخواست ہے
جب بھی خوشبو تری سانسوں کی سہانی آئے۔
منجمد خون میں پھر جا کے روانی آئے
جب کھلے پھول ترے وصل کی امیدوں کے۔
شبنمی ہونٹ ترے بن کے نشانی آئے
ناتواں اس کے مجھے ہجر نے کر ڈالا ہے۔
صورتِ یار جو دیکھوں تو جوانی آئے۔
مجھ پہ اب تک ہے وہی روحِ رواں کا عالم۔
ساعتِ ہجر کو بھولوں ٗ نہ بھلانی آئے۔
اُن کی خواہش ہے تو جلتا ہوں چتا پر بھی مگر۔
شرط یہ ہے کہ اُنھیں آگ لگانی آئے ۔
ناگ بن کر مجھے ڈستا ہے کوئی سوزِ نہاں۔
جب بھی تنہائی میں اک یاد پرانی آئے۔
ربط سانسوں میں نہ دھڑکن میں تسلسل باقی۔
تُو جو آئے تو رگ و پے میں جوانی آئے۔
سلب ہے قوتِ گویائی بھی سجاد مری۔
ضبط آنسو نہ ہوں جب درد کہانی آئے
یاسر شاہ
فلسفی
عظیم
سر اصلاح کی درخواست ہے
جب بھی خوشبو تری سانسوں کی سہانی آئے۔
منجمد خون میں پھر جا کے روانی آئے
جب کھلے پھول ترے وصل کی امیدوں کے۔
شبنمی ہونٹ ترے بن کے نشانی آئے
ناتواں اس کے مجھے ہجر نے کر ڈالا ہے۔
صورتِ یار جو دیکھوں تو جوانی آئے۔
مجھ پہ اب تک ہے وہی روحِ رواں کا عالم۔
ساعتِ ہجر کو بھولوں ٗ نہ بھلانی آئے۔
اُن کی خواہش ہے تو جلتا ہوں چتا پر بھی مگر۔
شرط یہ ہے کہ اُنھیں آگ لگانی آئے ۔
ناگ بن کر مجھے ڈستا ہے کوئی سوزِ نہاں۔
جب بھی تنہائی میں اک یاد پرانی آئے۔
ربط سانسوں میں نہ دھڑکن میں تسلسل باقی۔
تُو جو آئے تو رگ و پے میں جوانی آئے۔
سلب ہے قوتِ گویائی بھی سجاد مری۔
ضبط آنسو نہ ہوں جب درد کہانی آئے