غزل برائے اصلاح

الف عین
@عظیم،فلسفی،خلیل الر حمن
افاعیل--- مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
------------
نئی تہذیب انساں کو خدا سے دور کرتی ہے
یہ گمراہی کے رستے پر اسے مجبور کرتی ہے
--------------
عبادت سے جو سینے میں خدا کا نور آتا ہے
بُرائی کی روش دل کو سدا بے نور کرتی ہے
--------------
دلوں کا چین چھینا ہے تقابل نے زمانے میں
قناعت کی روش انساں کو تو مشکور کرتی ہے
------------
لگی ہے دوڑ دنیا میں زیادہ سے زیادہ کی
کماتا ہے مگر انساں کو یہ رنجور کرتی ہے
---------------
فحاشی اور یہ عریانی معاون ہیں بُرائی میں
زیادہ ہی جو عریاں ہو اُسے مشہور کرتی ہے
------------
کرپشن کی کمائی میں بُرائی یہ بھی دیکھی ہے
شرافت بھول جاتی ہے انہیں مغرور کرتی ہے
-----------------
بُرائی سے بچو ارشد خدا کے پاس جانا ہے
اُلجھ جانا نہ دنیا میں ، خدا سے دور کرتی ہے
---------------
 

الف عین

لائبریرین
ردیف کے فاعل پر غور کریں، اکثر اشعار میں یا تو محض اندازہ لگانا پڑتا ہے یا مؤنث فاعل پہلے مصرع کے پہلے ٹکڑے میں موجود ہوتا ہے اور دوسرے تیسرے ٹکڑے میں فاعل کچھ اور ہوتا ہے۔ میں آج کل پوری غزل میں کوئی اہم اور مشترک بات محسوس کرتا ہوں تو مکمل غزل کاپی پیسٹ نہیں کرتا اور عمومی غلطی کی نشاندہی کر دیتا ہوں
 
الف عین
تبدیلیوں کے بعد دوبارا
-------------

نئی تہذیب انساں کو خدا سے دور کرتی ہے
یہ گمراہی کے رستے پر اسے مجبور کرتی ہے
--------------
عبادت سے جو سینے میں خدا کا نور آتا ہے
بُرائی تو سیاہی ہے سدا بے نور کرتی ہے
--------------
دلوں کا چین چھینا ہے تقابل نے زمانے میں
قناعت کی روش انساں کو تو مشکور کرتی ہے
------------
لگی ہے دوڑ دنیا میں زیادہ سے زیادہ کی
زیادہ کی ہوس تجھ کو تجھی سے دور کرتی ہے
---------------
فحاشی اور یہ عریانی معاون ہیں بُرائی میں
زیادہ ہی جو عریاں ہو اُسے مشہور کرتی ہے
------------
کرپشن کی کمائی میں بُرائی یہ بھی دیکھی ہے
یہ محنت کی کمائی سے تجھے معذور کرتی ہے
-----------------
بُرائی سے بچو ارشد خدا کے پاس جانا ہے
اُلجھ جانا نہ دنیا میں ، خدا سے دور کرتی ہے
 

الف عین

لائبریرین
نئی تہذیب انساں کو خدا سے دور کرتی ہے
یہ گمراہی کے رستے پر اسے مجبور کرتی ہے
-------------- ٹھیک ہے

عبادت سے جو سینے میں خدا کا نور آتا ہے
بُرائی تو سیاہی ہے سدا بے نور کرتی ہے
-------------- دونوں مصرعے 'ہے' پر ختم ہوتے ہیں ۔ 'جو' بھی بھرتی کا لگتا ہے۔ دوسرے مصرعے میں 'تو' اچھا نہیں، وہاں 'وہ' استعمال کریں
خدا کا نور آ جاتا ہے سینے میں عبادت سے
برائی وہ سیاہی ہے، اسے بے نور.....

دلوں کا چین چھینا ہے تقابل نے زمانے میں
قناعت کی روش انساں کو تو مشکور کرتی ہے
------------ پہلے مصرع میں ماضی قریب کا صیغہ اور دوسرے میں حال کا؟ تو بھرتی کا ہے، اسے پھر کہیں

لگی ہے دوڑ دنیا میں زیادہ سے زیادہ کی
زیادہ کی ہوس تجھ کو تجھی سے دور کرتی ہے
--------------- دوسرا مصرع
ہوس ایسی ہے جو تجھ.....
بہتر ہو گا

فحاشی اور یہ عریانی معاون ہیں بُرائی میں
زیادہ ہی جو عریاں ہو اُسے مشہور کرتی ہے
------------ فحاشی کی ح پر تشدید ہونی چاہیے
یہ فحاشی، یہ عریانی.....
دوسرے مصرعے کا ربط مگر مضبوط نہیں

کرپشن کی کمائی میں بُرائی یہ بھی دیکھی ہے
یہ محنت کی کمائی سے تجھے معذور کرتی ہے
----------------- درست

بُرائی سے بچو ارشد خدا کے پاس جانا ہے
اُلجھ جانا نہ دنیا میں ، خدا سے دور کرتی ہے
.... اس میں وہی خرابی ہے۔ دوسرے مصرعے کا آخری حصہ 'دور کرتی ہے' کا فاعل برائی ہے جو پہلے مصرع کا پہلا لفظ ہے۔ اسے پھر کہیں
 
الف عین
تبدیلیوں کے بعد حاضرِ خدمت
----------------
نئی تہذیب انساں کو خدا سے دور کرتی ہے
یہ گمراہی کے رستے پر اسے مجبور کرتی ہے
--------------
خدا کا نور آ جاتا ہے سینے میں عبادت سے
برائی وہ سیاہی ہے، اسے بے نور کرتی ہے
--------------
سکوں چھینا ہے دنیا کا تقابل نے زمانے میں
قناعت کی روش انساں کو تو مشکور کرتی ہے
-------------
لگی ہے دوڑ دنیا میں زیادہ سے زیادہ کی
ہوس ایسی ہے جو تجھ کو تجھی سے دور کرتی ہے
---------------
یہ فحاشی ، یہ عریانی معاون ہیں بُرائی میں
جو اس رستے میں آگے ہو اُسے مشہور کرتی ہے
-------------
کرپشن کی کمائی میں بُرائی یہ بھی دیکھی ہے
یہ محنت کی کمائی سے تجھے معذور کرتی ہے
-------------
بھلایا حشر کو کیوں ہے لگا پیچھے ہے دنیا کے
چمک جھوٹی ہے دنیا کی تجھے مسحور کرتی ہے
--------------
الجھ جانا نہ دنیا میں، بچو اس سے سدا ارشد
محبّت اس جہاں کی تو خدا سے دور کرتی ہے
-------------
 

الف عین

لائبریرین
سکوں چھینا ہے دنیا کا تقابل نے زمانے میں
قناعت کی روش انساں کو تو مشکور کرتی ہے
------------- یہ 'تو' تم کو بہت پسند ہے! انسان کو مشکور... رواں نہیں لگتا؟ اس کے علاوہ مشکور لفظ کن معنوں میں استعمال کیا گیا ہے؟ اصل معنی ہوتے ہیں جس کا شکر ادا کیا جائے! دنیا اور زمانہ دونوں الفاظ ایک ساتھ درست نہیں بلکہ زمانے میں تو بھرتی کا لگتا ہے، اس کے بدلے لیکن یا مگر استعمال کر کے دونوں مصرعوں میں ربط پیدا کریں۔

یہ فحاشی ، یہ عریانی معاون ہیں بُرائی میں
جو اس رستے میں آگے ہو اُسے مشہور کرتی ہے
------------- بہت اچھا تو نہیں مگر چلے گا

بھلایا حشر کو کیوں ہے لگا پیچھے ہے دنیا کے
چمک جھوٹی ہے دنیا کی تجھے مسحور کرتی ہے
-------------- روانی بری طرح متاثر ہے، دوسرے مصرعے میں 'جو' کے بغیر بات مکمل نہیں ہوتی۔ دونوں مصرعوں میں 'دنیا' بھی درست نہیں، مقطع میں بھی تقریباً یہی بات کہی گئی ہے۔ دونوں کو ملا کر ایک شعر بنانے کی کوشش کریں
 
Top