سید تنویر رضا
محفلین
الف عین
یہ حقیقت ہے کہ وہ شخص وفادار نہ تھا
ہاں مگر میں بھی وفا کرنے کو تیار نہ تھا
عرصۂ ہجر بڑا تھا پہ یہ دشوار نہ تھا
دل تو خود ہی مرا آمادۂ دیدار نہ تھا
شہرِ بے حس میں اسیرانِ ہوس تھے سارے
اے محبت ترا کوئی بھی گرفتار نہ تھا
میرے آنسو، مرا غم اور مری وحشت کے سوا
ہجر کی رات کوئی میرا مددگار نہ تھا
جانے کیوںکر اسے لمحوں میں کیا میں نے عبور
راستہ عشق و محبت کا تو ہموار نہ تھا
میں نے کل رات بہت حق کی طرفداری کی
صبح دیکھا تو کوئی میرا طرفدار نہ تھا
اہلِ دنیا نے تو دولت کو ہی عزت دی تھی
کل زمانے میں ہنر کا کوئی میعار نہ تھا
یہ غزل ساری ہے تنویر مرے خواب کی دین
جب کہی ہے یہ غزل تب تو میں بیدار نہ تھا
یہ حقیقت ہے کہ وہ شخص وفادار نہ تھا
ہاں مگر میں بھی وفا کرنے کو تیار نہ تھا
عرصۂ ہجر بڑا تھا پہ یہ دشوار نہ تھا
دل تو خود ہی مرا آمادۂ دیدار نہ تھا
شہرِ بے حس میں اسیرانِ ہوس تھے سارے
اے محبت ترا کوئی بھی گرفتار نہ تھا
میرے آنسو، مرا غم اور مری وحشت کے سوا
ہجر کی رات کوئی میرا مددگار نہ تھا
جانے کیوںکر اسے لمحوں میں کیا میں نے عبور
راستہ عشق و محبت کا تو ہموار نہ تھا
میں نے کل رات بہت حق کی طرفداری کی
صبح دیکھا تو کوئی میرا طرفدار نہ تھا
اہلِ دنیا نے تو دولت کو ہی عزت دی تھی
کل زمانے میں ہنر کا کوئی میعار نہ تھا
یہ غزل ساری ہے تنویر مرے خواب کی دین
جب کہی ہے یہ غزل تب تو میں بیدار نہ تھا
آخری تدوین: