غزل برائے اصلاح

الف عین
یاسر شاہ
محمد خلیل الرحمٰن
عظیم
فلسفی
سر اصلاح کا متمنی ہوں
شب و روز تھی مجھے کیوں جلن مرے ذہن میں یہ سوال تھا۔
ملا تم سے جب تو پتا چلا ترے عشق کا یہ کمال تھا۔
مجھے تم کبھی نہ سمجھ سکے یہی تلخیوں کی وجہ تھی بس۔
تجھے چھوڑ کر کوئی دوسرا مرا خواب تھا نہ خیال تھا۔
سر بام آکے حجاب میں مری پیاس اور بڑھا گئے۔
میں تڑپتا رہ گیا دید کو ، مرا کیسا تم سے وصال تھا۔
جو پڑا رہا ترے بام و در پہ فگار تن لئے عمر بھر۔
وہ ہما نہ تھا ترے اوج کا مری حسرتوں کا مُنال تھا۔
مری ذات دستِ طلب رہی ترے سر پہ تاج تھا ناز کا۔
میں کبھی کا مر گیا بے اجل اسی طرح جینا محال تھا۔
یہ مرے نصیب کی بات تھی ترے ساتھ جو میں نہ چل سکا
تری کہکشاں سے تھیں نسبتیں مجھے ہر قدم پہ زوال تھا۔
رہا دست بستہ امید میں کوئی دستگیر نہ مل سکا۔
مرے ہر طرف تھیں اداسیاں مرے لہجے میں بھی ملال تھا۔
 

فلسفی

محفلین
شتر گربہ ہے کہیں کہیں مثلا مطلع میں دوسرے مصرعے میں "تم" اور "ترے" کا استعمال۔ "تم" کے ساتھ "تمھارے" یا "تُو" کے ساتھ "ترے" استعمال ہونا چاہیے۔

ویسے طویل بحر کو نبھانا بھی بہت مشکل کام ہے۔ بہت سے الفاظ گرانا پڑتے ہیں اس کے بارے میں اساتذہ ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔
 

عظیم

محفلین
شب و روز تھی مجھے کیوں جلن مرے ذہن میں یہ سوال تھا۔
ملا تم سے جب تو پتا چلا ترے عشق کا یہ کمال تھا۔
----جلن یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ کس چیز کی جلن؟ اس کی جگہ مضطرب استعمال کریں تو مطلب واضح ہو جائے گا
مثلاً شب و روز کیوں تھا میں مضطرب.....

مجھے تم کبھی نہ سمجھ سکے یہی تلخیوں کی وجہ تھی بس۔
تجھے چھوڑ کر کوئی دوسرا مرا خواب تھا نہ خیال تھا۔
۔۔۔۔۔۔وجہ کا تلفظ غلط ہو گیا ہے۔ درست تلفظ میں جیم ساکن ہے۔ یہاں آپ سبب استعمال کر سکتے ہیں
یہاں بھی شتر گربہ ہے، پہلے مصرع میں تم اور دوسرے میں تجھے

سر بام آکے حجاب میں مری پیاس اور بڑھا گئے۔
میں تڑپتا رہ گیا دید کو ، مرا کیسا تم سے وصال تھا۔
۔۔۔۔مرا کیسا تم سے وصال تھا' کا ٹکڑا عجیب لگ رہا ہے۔ شاید 'یہ عجب طرح کا وصال تھا' ٹھیک رہے

جو پڑا رہا ترے بام و در پہ فگار تن لئے عمر بھر۔
وہ ہما نہ تھا ترے اوج کا مری حسرتوں کا مُنال تھا۔
۔۔۔۔درست لگ رہا ہے

مری ذات دستِ طلب رہی ترے سر پہ تاج تھا ناز کا۔
میں کبھی کا مر گیا بے اجل اسی طرح جینا محال تھا۔
۔۔۔۔۔یہ شعر سمجھ نہیں آ رہا. خاص طور پر دوسرا مصرع

یہ مرے نصیب کی بات تھی ترے ساتھ جو میں نہ چل سکا
تری کہکشاں سے تھیں نسبتیں مجھے ہر قدم پہ زوال تھا۔
۔۔۔۔بہت اچھا لگا یہ شعر۔ صرف 'ساتھ جو میں نہ چل سکا' کی جگہ 'ترے ساتھ ساتھ نہ چل سکا' بہتر ہو گا
معمولی سا ربط بھی کمزور ہے دونوں مصرعوں میں لیکن میرا خیال ہے کہ چل جائے گا

رہا دست بستہ امید میں کوئی دستگیر نہ مل سکا۔
مرے ہر طرف تھیں اداسیاں مرے لہجے میں بھی ملال تھا۔
۔۔۔۔لہجے میں ے کا گرنا کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔ اور لہجے میں ملال بھی کچھ عجیب لگ رہا ہے
اس کی جگہ اگر 'گفتگو' استعمال کر لیں تو میرا خیال ہے کہ شعر بہتر ہو جائے گا
 
شب و روز تھی مجھے کیوں جلن مرے ذہن میں یہ سوال تھا۔
ملا تم سے جب تو پتا چلا ترے عشق کا یہ کمال تھا۔
----جلن یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ کس چیز کی جلن؟ اس کی جگہ مضطرب استعمال کریں تو مطلب واضح ہو جائے گا
مثلاً شب و روز کیوں تھا میں مضطرب.....

مجھے تم کبھی نہ سمجھ سکے یہی تلخیوں کی وجہ تھی بس۔
تجھے چھوڑ کر کوئی دوسرا مرا خواب تھا نہ خیال تھا۔
۔۔۔۔۔۔وجہ کا تلفظ غلط ہو گیا ہے۔ درست تلفظ میں جیم ساکن ہے۔ یہاں آپ سبب استعمال کر سکتے ہیں
یہاں بھی شتر گربہ ہے، پہلے مصرع میں تم اور دوسرے میں تجھے

سر بام آکے حجاب میں مری پیاس اور بڑھا گئے۔
میں تڑپتا رہ گیا دید کو ، مرا کیسا تم سے وصال تھا۔
۔۔۔۔مرا کیسا تم سے وصال تھا' کا ٹکڑا عجیب لگ رہا ہے۔ شاید 'یہ عجب طرح کا وصال تھا' ٹھیک رہے

جو پڑا رہا ترے بام و در پہ فگار تن لئے عمر بھر۔
وہ ہما نہ تھا ترے اوج کا مری حسرتوں کا مُنال تھا۔
۔۔۔۔درست لگ رہا ہے

مری ذات دستِ طلب رہی ترے سر پہ تاج تھا ناز کا۔
میں کبھی کا مر گیا بے اجل اسی طرح جینا محال تھا۔
۔۔۔۔۔یہ شعر سمجھ نہیں آ رہا. خاص طور پر دوسرا مصرع

یہ مرے نصیب کی بات تھی ترے ساتھ جو میں نہ چل سکا
تری کہکشاں سے تھیں نسبتیں مجھے ہر قدم پہ زوال تھا۔
۔۔۔۔بہت اچھا لگا یہ شعر۔ صرف 'ساتھ جو میں نہ چل سکا' کی جگہ 'ترے ساتھ ساتھ نہ چل سکا' بہتر ہو گا
معمولی سا ربط بھی کمزور ہے دونوں مصرعوں میں لیکن میرا خیال ہے کہ چل جائے گا

رہا دست بستہ امید میں کوئی دستگیر نہ مل سکا۔
مرے ہر طرف تھیں اداسیاں مرے لہجے میں بھی ملال تھا۔
۔۔۔۔لہجے میں ے کا گرنا کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔ اور لہجے میں ملال بھی کچھ عجیب لگ رہا ہے
اس کی جگہ اگر 'گفتگو' استعمال کر لیں تو میرا خیال ہے کہ شعر بہتر ہو جائے گا
بہت شکریہ عظیم بھائی میں کوشش کرتا ہوں بہتر کرنے کی
 
شب و روز تھی مجھے کیوں جلن مرے ذہن میں یہ سوال تھا۔
ملا تم سے جب تو پتا چلا ترے عشق کا یہ کمال تھا۔
----جلن یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ کس چیز کی جلن؟ اس کی جگہ مضطرب استعمال کریں تو مطلب واضح ہو جائے گا
مثلاً شب و روز کیوں تھا میں مضطرب.....

مجھے تم کبھی نہ سمجھ سکے یہی تلخیوں کی وجہ تھی بس۔
تجھے چھوڑ کر کوئی دوسرا مرا خواب تھا نہ خیال تھا۔
۔۔۔۔۔۔وجہ کا تلفظ غلط ہو گیا ہے۔ درست تلفظ میں جیم ساکن ہے۔ یہاں آپ سبب استعمال کر سکتے ہیں
یہاں بھی شتر گربہ ہے، پہلے مصرع میں تم اور دوسرے میں تجھے

سر بام آکے حجاب میں مری پیاس اور بڑھا گئے۔
میں تڑپتا رہ گیا دید کو ، مرا کیسا تم سے وصال تھا۔
۔۔۔۔مرا کیسا تم سے وصال تھا' کا ٹکڑا عجیب لگ رہا ہے۔ شاید 'یہ عجب طرح کا وصال تھا' ٹھیک رہے

جو پڑا رہا ترے بام و در پہ فگار تن لئے عمر بھر۔
وہ ہما نہ تھا ترے اوج کا مری حسرتوں کا مُنال تھا۔
۔۔۔۔درست لگ رہا ہے

مری ذات دستِ طلب رہی ترے سر پہ تاج تھا ناز کا۔
میں کبھی کا مر گیا بے اجل اسی طرح جینا محال تھا۔
۔۔۔۔۔یہ شعر سمجھ نہیں آ رہا. خاص طور پر دوسرا مصرع

یہ مرے نصیب کی بات تھی ترے ساتھ جو میں نہ چل سکا
تری کہکشاں سے تھیں نسبتیں مجھے ہر قدم پہ زوال تھا۔
۔۔۔۔بہت اچھا لگا یہ شعر۔ صرف 'ساتھ جو میں نہ چل سکا' کی جگہ 'ترے ساتھ ساتھ نہ چل سکا' بہتر ہو گا
معمولی سا ربط بھی کمزور ہے دونوں مصرعوں میں لیکن میرا خیال ہے کہ چل جائے گا

رہا دست بستہ امید میں کوئی دستگیر نہ مل سکا۔
مرے ہر طرف تھیں اداسیاں مرے لہجے میں بھی ملال تھا۔
۔۔۔۔لہجے میں ے کا گرنا کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔ اور لہجے میں ملال بھی کچھ عجیب لگ رہا ہے
اس کی جگہ اگر 'گفتگو' استعمال کر لیں تو میرا خیال ہے کہ شعر بہتر ہو جائے گا
شب و روز کیوں تھا مَیں مضطرب مرے ذہن میں یہ سوال تھا۔
ملا تجھ سے جب تو پتا چلا ترے عشق کا یہ کمال تھا۔
مجھے تم کبھی نہ سمجھ سکے یہی تلخیوں کا سبب تھا بس۔
تمھیں چھوڑ کر کوئی دوسرا مرا خواب تھا نہ خیال تھا۔
سر بام آکے حجاب میں مری پیاس اور بڑھا گئے۔
میں تڑپتا رہ گیا دید کو ، یہ عجب سا تم سے وصال تھا۔
جو پڑا رہا ترے بام و در پہ فگار تن لئے عمر بھر۔
وہ ہما نہ تھا ترے اوج کا مری حسرتوں کا مُنال تھا۔
یہ مرے نصیب کی بات تھی ترے ساتھ ساتھ نہ چل سکا
تری کہکشاں سے تھیں نسبتیں مجھے ہر قدم پہ زوال تھا۔
رہا دست بستہ امید میں کوئی دستگیر نہ مل سکا۔
مرے ہر طرف تھیں اداسیاں مری گفتگو میں ملال تھا۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
عظیم نے تو شتر گربہ کی طرف بھی اشارے کیے تھے جس پر توجہ نہیں کی گئی
شب و روز کیوں تھا مَیں مضطرب مرے ذہن میں یہ سوال تھا۔
ملا تم سے جب تو پتا چلا ترے عشق کا یہ کمال تھا۔
.. ملا تجھ سے جب......

مجھے تم کبھی نہ سمجھ سکے یہی تلخیوں کی وجہ تھی بس۔
تمھیں چھوڑ کر کوئی دوسرا مرا خواب تھا نہ خیال تھا۔
.... تلخیوں کا سبب تھا......

میں کبھی کا مر گیا بے اجل تہی دست جینا محال تھا۔
...... یہ تو اب بھی نا قابل فہم ہے
 
Top