سعید احمد سجاد
محفلین
الف عین
یاسر شاہ
محمد خلیل الرحمٰن
عظیم
فلسفی
سر اصلاح کا متمنی ہوں
شب و روز تھی مجھے کیوں جلن مرے ذہن میں یہ سوال تھا۔
ملا تم سے جب تو پتا چلا ترے عشق کا یہ کمال تھا۔
مجھے تم کبھی نہ سمجھ سکے یہی تلخیوں کی وجہ تھی بس۔
تجھے چھوڑ کر کوئی دوسرا مرا خواب تھا نہ خیال تھا۔
سر بام آکے حجاب میں مری پیاس اور بڑھا گئے۔
میں تڑپتا رہ گیا دید کو ، مرا کیسا تم سے وصال تھا۔
جو پڑا رہا ترے بام و در پہ فگار تن لئے عمر بھر۔
وہ ہما نہ تھا ترے اوج کا مری حسرتوں کا مُنال تھا۔
مری ذات دستِ طلب رہی ترے سر پہ تاج تھا ناز کا۔
میں کبھی کا مر گیا بے اجل اسی طرح جینا محال تھا۔
یہ مرے نصیب کی بات تھی ترے ساتھ جو میں نہ چل سکا
تری کہکشاں سے تھیں نسبتیں مجھے ہر قدم پہ زوال تھا۔
رہا دست بستہ امید میں کوئی دستگیر نہ مل سکا۔
مرے ہر طرف تھیں اداسیاں مرے لہجے میں بھی ملال تھا۔
یاسر شاہ
محمد خلیل الرحمٰن
عظیم
فلسفی
سر اصلاح کا متمنی ہوں
شب و روز تھی مجھے کیوں جلن مرے ذہن میں یہ سوال تھا۔
ملا تم سے جب تو پتا چلا ترے عشق کا یہ کمال تھا۔
مجھے تم کبھی نہ سمجھ سکے یہی تلخیوں کی وجہ تھی بس۔
تجھے چھوڑ کر کوئی دوسرا مرا خواب تھا نہ خیال تھا۔
سر بام آکے حجاب میں مری پیاس اور بڑھا گئے۔
میں تڑپتا رہ گیا دید کو ، مرا کیسا تم سے وصال تھا۔
جو پڑا رہا ترے بام و در پہ فگار تن لئے عمر بھر۔
وہ ہما نہ تھا ترے اوج کا مری حسرتوں کا مُنال تھا۔
مری ذات دستِ طلب رہی ترے سر پہ تاج تھا ناز کا۔
میں کبھی کا مر گیا بے اجل اسی طرح جینا محال تھا۔
یہ مرے نصیب کی بات تھی ترے ساتھ جو میں نہ چل سکا
تری کہکشاں سے تھیں نسبتیں مجھے ہر قدم پہ زوال تھا۔
رہا دست بستہ امید میں کوئی دستگیر نہ مل سکا۔
مرے ہر طرف تھیں اداسیاں مرے لہجے میں بھی ملال تھا۔