غزل برائے اصلاح

الف عین
یاسر شاہ
@محمدخلیل الرحمٰن
عظیم
سر اصلاح کے لئے پیشِ خدمت ہوں
دل سرائے ہے مرا درد ہیں مہماں سارے۔
گردشِ وقت کی میراث ہیں پیماں سارے۔
میرے تنکوں کے نشیمن نے بگاڑا ہے کیا۔
اِس کے درپے ہوئے کیوں قہر کے طوفاں سارے۔
انتظار اور نہ شاید میں ترا کر پاؤں ۔
بے اثر آج ہوئے جاتے ہیں درماں سارے۔
پھر کوئی مانگ کہ اجڑی ہے سرعام یہاں۔
پھر لٹے ہیں کسی دوشیزہ کے ارماں سارے۔
سچ کو سچ مان کے قسمت میں جدائی ٹھہری۔
رو دئیے میری اسیری پہ وہ زنداں سارے
ناتواں جسم پہ ترکش ہوئے خالی کیا کیا۔
باوجوداس کے مرے زخم ہیں خنداں سارے۔
تیرے ہونٹوں کی وہ سرخی تری زلفوں کی گھٹا۔
ہیں مری ذات پہ اب تک وہی وجداں سارے
روٹھ جاتا ہوں میں سجاد کبھی خود سے جو۔
مجھ پہ ہیں اُن کی مروت کے یہ احساں سارے۔
 

الف عین

لائبریرین
دل سرائے ہے مرا درد ہیں مہماں سارے۔
گردشِ وقت کی میراث ہیں پیماں سارے۔
..... مطلع میں ایطا آ گیا ہے، دونوں قوافی 'ماں' پر ختم ہو رہے ہیں، شعر سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کہنا چاہ رہے ہیں

میرے تنکوں کے نشیمن نے بگاڑا ہے کیا۔
اِس کے درپے ہوئے کیوں قہر کے طوفاں سارے۔
.. درست

انتظار اور نہ شاید میں ترا کر پاؤں ۔
بے اثر آج ہوئے جاتے ہیں درماں سارے۔
.... شعر دو لخت لگتا ہے، انتظار اور درماں کا آپسی تعلق؟

پھر کوئی مانگ کہ اجڑی ہے سرعام یہاں۔
پھر لٹے ہیں کسی دوشیزہ کے ارماں سارے۔
.... درست

سچ کو سچ مان کے قسمت میں جدائی ٹھہری۔
رو دئیے میری اسیری پہ وہ زنداں سارے
... پہلا مصرع واضح نہیں

ناتواں جسم پہ ترکش ہوئے خالی کیا کیا۔
باوجوداس کے مرے زخم ہیں خنداں سارے۔
... درست، کیا کیا کی جگہ کتنے سے کچھ بہتری محسوس ہوتی ہے؟

تیرے ہونٹوں کی وہ سرخی تری زلفوں کی گھٹا۔
ہیں مری ذات پہ اب تک وہی وجداں سارے
... وجدان تو انسان کے اندر سے اٹھتا ہے، ہونٹوں اور زلفوں سے تعلق سمجھ میں نہیں آتا

روٹھ جاتا ہوں میں سجاد کبھی خود سے جو۔
مجھ پہ ہیں اُن کی مروت کے یہ احساں سارے۔
... سے جو دو متصل الفاظ کا طویل کھنچنا کچھ ناگوار محسوس ہوتا ہے۔ 'جو' کی معنویت بھی ظاہر نہیں ہوتی
روٹھ جاتا ہوں کبھی خود سے بھی سجاد جو میں / میں یوں سجاد
یا کسی اور متبادل پر غور کریں
 
دل سرائے ہے مرا درد ہیں مہماں سارے۔
گردشِ وقت کی میراث ہیں پیماں سارے۔
..... مطلع میں ایطا آ گیا ہے، دونوں قوافی 'ماں' پر ختم ہو رہے ہیں، شعر سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کہنا چاہ رہے ہیں

میرے تنکوں کے نشیمن نے بگاڑا ہے کیا۔
اِس کے درپے ہوئے کیوں قہر کے طوفاں سارے۔
.. درست

انتظار اور نہ شاید میں ترا کر پاؤں ۔
بے اثر آج ہوئے جاتے ہیں درماں سارے۔
.... شعر دو لخت لگتا ہے، انتظار اور درماں کا آپسی تعلق؟

پھر کوئی مانگ کہ اجڑی ہے سرعام یہاں۔
پھر لٹے ہیں کسی دوشیزہ کے ارماں سارے۔
.... درست

سچ کو سچ مان کے قسمت میں جدائی ٹھہری۔
رو دئیے میری اسیری پہ وہ زنداں سارے
... پہلا مصرع واضح نہیں

ناتواں جسم پہ ترکش ہوئے خالی کیا کیا۔
باوجوداس کے مرے زخم ہیں خنداں سارے۔
... درست، کیا کیا کی جگہ کتنے سے کچھ بہتری محسوس ہوتی ہے؟

تیرے ہونٹوں کی وہ سرخی تری زلفوں کی گھٹا۔
ہیں مری ذات پہ اب تک وہی وجداں سارے
... وجدان تو انسان کے اندر سے اٹھتا ہے، ہونٹوں اور زلفوں سے تعلق سمجھ میں نہیں آتا

روٹھ جاتا ہوں میں سجاد کبھی خود سے جو۔
مجھ پہ ہیں اُن کی مروت کے یہ احساں سارے۔
... سے جو دو متصل الفاظ کا طویل کھنچنا کچھ ناگوار محسوس ہوتا ہے۔ 'جو' کی معنویت بھی ظاہر نہیں ہوتی
روٹھ جاتا ہوں کبھی خود سے بھی سجاد جو میں / میں یوں سجاد
یا کسی اور متبادل پر غور کریں
شکریہ سر میں بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن
انتظار اور نہ شاید میں ترا کر پاؤں ۔
بے اثر آج ہوئے جاتے ہیں درماں سارے۔
اس شعر میں مَیں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ میں بسترِ مرگ پہ ہوں اور میرا سارے دوا دارو علاج آج بے اثر ہو رہے ہیں اس لئے مرنے کی کیفیت سے گزر رہا ہوں ہو سکتا ہے کہ میں اے محبوب اب تیرا مزید انتظار نہ کر پاؤں اور تیرے آنے سے پہلے لقمہ اجل بن جاؤں یہ شعر عاجزی میں بیان کیا ہے میری طرف سے محبوب کو التجا ہے کہ اگر میں تیرے آنے سے پہلے مر جاؤں تو ناراض نہ ہونا کہ میں تیرے استقبال کے لئے حاضر کیوں نہیں ہوں
 
دل سرائے ہے مرا درد ہیں مہماں سارے۔
گردشِ وقت کی میراث ہیں پیماں سارے۔
..... مطلع میں ایطا آ گیا ہے، دونوں قوافی 'ماں' پر ختم ہو رہے ہیں، شعر سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کہنا چاہ رہے ہیں

میرے تنکوں کے نشیمن نے بگاڑا ہے کیا۔
اِس کے درپے ہوئے کیوں قہر کے طوفاں سارے۔
.. درست

انتظار اور نہ شاید میں ترا کر پاؤں ۔
بے اثر آج ہوئے جاتے ہیں درماں سارے۔
.... شعر دو لخت لگتا ہے، انتظار اور درماں کا آپسی تعلق؟

پھر کوئی مانگ کہ اجڑی ہے سرعام یہاں۔
پھر لٹے ہیں کسی دوشیزہ کے ارماں سارے۔
.... درست

سچ کو سچ مان کے قسمت میں جدائی ٹھہری۔
رو دئیے میری اسیری پہ وہ زنداں سارے
... پہلا مصرع واضح نہیں

ناتواں جسم پہ ترکش ہوئے خالی کیا کیا۔
باوجوداس کے مرے زخم ہیں خنداں سارے۔
... درست، کیا کیا کی جگہ کتنے سے کچھ بہتری محسوس ہوتی ہے؟

تیرے ہونٹوں کی وہ سرخی تری زلفوں کی گھٹا۔
ہیں مری ذات پہ اب تک وہی وجداں سارے
... وجدان تو انسان کے اندر سے اٹھتا ہے، ہونٹوں اور زلفوں سے تعلق سمجھ میں نہیں آتا

روٹھ جاتا ہوں میں سجاد کبھی خود سے جو۔
مجھ پہ ہیں اُن کی مروت کے یہ احساں سارے۔
... سے جو دو متصل الفاظ کا طویل کھنچنا کچھ ناگوار محسوس ہوتا ہے۔ 'جو' کی معنویت بھی ظاہر نہیں ہوتی
روٹھ جاتا ہوں کبھی خود سے بھی سجاد جو میں / میں یوں سجاد
یا کسی اور متبادل پر غور کریں
سر آپ کے نقاط کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے کچھ تبدیلیاں کی ہیں نظر ثانی فرما دیجیئے
دل سرائے ہے مرا درد ہیں مہماں سارے۔
مسترد ہو کے رہے وصل کے امکاں سارے۔
منتظر میں ہوں ابھی تک تری آمد کا یونہی۔
یاد آئیں مجھے رہ رہ کے وہ پیماں سارے
میرے تنکوں کے نشیمن نے بگاڑا ہے کیا۔
اِس کے درپے ہوئے کیوں قہر کے طوفاں سارے۔
انتظار اور نہ شاید میں ترا کر پاؤں ۔
بے اثر آج ہوئے جاتے ہیں درماں سارے۔
پھر کوئی مانگ کہ اجڑی ہے سرعام یہاں۔
پھر لٹے ہیں کسی دوشیزہ کے ارماں سارے۔
سچ کو سچ کہنے پہ قسمت میں جدائی ٹھہری۔
رو دئیے میری اسیری پہ وہ زنداں سارے
ناتواں جسم پہ ترکش ہوئے خالی کتنے۔
باوجوداس کے مرے زخم ہیں خنداں سارے۔
تیرے ہونٹوں کی وہ سرخی تری زلفوں کی گھٹا۔
ہیں مری بات کے اب تک وہی عنواں سارے
روٹھ جاتا ہوں میں سجاد جو خود سے اکثر۔
مجھ پہ ہیں اُن کی مروت کے یہ احساں سارے۔
 

الف عین

لائبریرین
دل سرائے ہے مرا درد ہیں مہماں سارے۔
مسترد ہو کے رہے وصل کے امکاں سارے۔
.. مطلع اب بھی واضح نہیں

منتظر میں ہوں ابھی تک تری آمد کا یونہی۔
یاد آئیں مجھے رہ رہ کے وہ پیماں سارے
... یاد آئیں؟ میں ے ہے یا ی؟ اگر ی ہے تو غلط ہے کہ پیماں مذکر ہے۔ اگر ے ہے تو 'آئے' سے بہتر ہو گا یا مصرع کو بدل دیں
مجھ کو یاد آتے ہیں رہ رہ کے وہ پیماں سارے

میرے تنکوں کے نشیمن نے بگاڑا ہے کیا۔
اِس کے درپے ہوئے کیوں قہر کے طوفاں سارے۔
... ٹھیک

انتظار اور نہ شاید میں ترا کر پاؤں ۔
بے اثر آج ہوئے جاتے ہیں درماں سارے۔
.... جو اظہار کرنا چاہتے ہیں اس کا ابلاغ مکمل نہیں ہوتا
آج کا استعمال بھی بھٹکا دیتا ہے ذہن کو۔ 'اب تو' بہتر ہو گا

پھر کوئی مانگ کہ اجڑی ہے سرعام یہاں۔
پھر لٹے ہیں کسی دوشیزہ کے ارماں سارے۔
سچ کو سچ کہنے پہ قسمت میں جدائی ٹھہری۔
رو دئیے میری اسیری پہ وہ زنداں سارے
ناتواں جسم پہ ترکش ہوئے خالی کتنے۔
باوجوداس کے مرے زخم ہیں خنداں سارے۔
.. درست اوپر کے اشعار

تیرے ہونٹوں کی وہ سرخی تری زلفوں کی گھٹا۔
ہیں مری بات کے اب تک وہی عنواں سارے
.... بات سے بات نہیں بنتی
ہیں سخن کے مرے اب تک.....

روٹھ جاتا ہوں میں سجاد جو خود سے اکثر۔
مجھ پہ ہیں اُن کی مروت کے یہ احساں سارے۔
.. بہتر ہو گیا
 
دل سرائے ہے مرا درد ہیں مہماں سارے۔
مسترد ہو کے رہے وصل کے امکاں سارے۔
.. مطلع اب بھی واضح نہیں

منتظر میں ہوں ابھی تک تری آمد کا یونہی۔
یاد آئیں مجھے رہ رہ کے وہ پیماں سارے
... یاد آئیں؟ میں ے ہے یا ی؟ اگر ی ہے تو غلط ہے کہ پیماں مذکر ہے۔ اگر ے ہے تو 'آئے' سے بہتر ہو گا یا مصرع کو بدل دیں
مجھ کو یاد آتے ہیں رہ رہ کے وہ پیماں سارے

میرے تنکوں کے نشیمن نے بگاڑا ہے کیا۔
اِس کے درپے ہوئے کیوں قہر کے طوفاں سارے۔
... ٹھیک

انتظار اور نہ شاید میں ترا کر پاؤں ۔
بے اثر آج ہوئے جاتے ہیں درماں سارے۔
.... جو اظہار کرنا چاہتے ہیں اس کا ابلاغ مکمل نہیں ہوتا
آج کا استعمال بھی بھٹکا دیتا ہے ذہن کو۔ 'اب تو' بہتر ہو گا

پھر کوئی مانگ کہ اجڑی ہے سرعام یہاں۔
پھر لٹے ہیں کسی دوشیزہ کے ارماں سارے۔
سچ کو سچ کہنے پہ قسمت میں جدائی ٹھہری۔
رو دئیے میری اسیری پہ وہ زنداں سارے
ناتواں جسم پہ ترکش ہوئے خالی کتنے۔
باوجوداس کے مرے زخم ہیں خنداں سارے۔
.. درست اوپر کے اشعار

تیرے ہونٹوں کی وہ سرخی تری زلفوں کی گھٹا۔
ہیں مری بات کے اب تک وہی عنواں سارے
.... بات سے بات نہیں بنتی
ہیں سخن کے مرے اب تک.....

روٹھ جاتا ہوں میں سجاد جو خود سے اکثر۔
مجھ پہ ہیں اُن کی مروت کے یہ احساں سارے۔
.. بہتر ہو گیا
شکریہ سر
 
دل سرائے ہے مرا درد ہیں مہماں سارے۔
مسترد ہو کے رہے وصل کے امکاں سارے۔
.. مطلع اب بھی واضح نہیں

منتظر میں ہوں ابھی تک تری آمد کا یونہی۔
یاد آئیں مجھے رہ رہ کے وہ پیماں سارے
... یاد آئیں؟ میں ے ہے یا ی؟ اگر ی ہے تو غلط ہے کہ پیماں مذکر ہے۔ اگر ے ہے تو 'آئے' سے بہتر ہو گا یا مصرع کو بدل دیں
مجھ کو یاد آتے ہیں رہ رہ کے وہ پیماں سارے

میرے تنکوں کے نشیمن نے بگاڑا ہے کیا۔
اِس کے درپے ہوئے کیوں قہر کے طوفاں سارے۔
... ٹھیک

انتظار اور نہ شاید میں ترا کر پاؤں ۔
بے اثر آج ہوئے جاتے ہیں درماں سارے۔
.... جو اظہار کرنا چاہتے ہیں اس کا ابلاغ مکمل نہیں ہوتا
آج کا استعمال بھی بھٹکا دیتا ہے ذہن کو۔ 'اب تو' بہتر ہو گا

پھر کوئی مانگ کہ اجڑی ہے سرعام یہاں۔
پھر لٹے ہیں کسی دوشیزہ کے ارماں سارے۔
سچ کو سچ کہنے پہ قسمت میں جدائی ٹھہری۔
رو دئیے میری اسیری پہ وہ زنداں سارے
ناتواں جسم پہ ترکش ہوئے خالی کتنے۔
باوجوداس کے مرے زخم ہیں خنداں سارے۔
.. درست اوپر کے اشعار

تیرے ہونٹوں کی وہ سرخی تری زلفوں کی گھٹا۔
ہیں مری بات کے اب تک وہی عنواں سارے
.... بات سے بات نہیں بنتی
ہیں سخن کے مرے اب تک.....

روٹھ جاتا ہوں میں سجاد جو خود سے اکثر۔
مجھ پہ ہیں اُن کی مروت کے یہ احساں سارے۔
.. بہتر ہو گیا
منتظر میں ہوں ابھی تک تری آمد کا یونہی۔
یاد آئیں مجھے رہ رہ کے وہ پیماں سارے
سر اس شعر میں آئیں بڑی ے والا لکھا تھا
منتظر میں ہوں ابھی تک تری آمد کا یونہی۔
یاد آئے مجھے رہ رہ کے وہ پیماں سارے
 

الف عین

لائبریرین
منتظر میں ہوں ابھی تک تری آمد کا یونہی۔
یاد آئیں مجھے رہ رہ کے وہ پیماں سارے
سر اس شعر میں آئیں بڑی ے والا لکھا تھا
منتظر میں ہوں ابھی تک تری آمد کا یونہی۔
یاد آئے مجھے رہ رہ کے وہ پیماں سارے
آئیں ے والا ہے تو 'آتے ہیں' میں تبدیل کرنا بہتر ہو گا جیسا میں نے مشورہ دیا تھا
مجھ کو یاد آتے ہیں رہ رہ کے وہ پیماں سارے
 
Top