غزل برائے اصلاح

انیس جان

محفلین
الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
عظیم
بزم اب خالی ہے پروانوں سے کیوں
سیکڑوں شمعیں ہے ، اک بھی گل نہیں

جو نشہ ساقی تری نظروں میں ہیں
اتنی زہریلی قسم سے مُل نہیں

کتنی وحشت ناک تھی بادِ خزاں
باغ میں اب تک نشانِ گُل نہیں

میں بھی مسلم ہوں بتاؤ میری جاں
میری میت پر پڑھی کیوں قُل نہیں

سوئیے جا کر کہ قبرستان میں
فتنے جھگڑے اور شور و غُل نہیں

مسلئہ کشمیر سے تشبیہ دوں
اتنی بھی پرپیچ وہ کاکل نہیں

درد تکلیفیں ہے تب تک اے انیس
زندگی کی شمع جب تک گل نہیں
 

الف عین

لائبریرین
قافیہ بڑا تنگ کر رکھا ہے!
بزم اب خالی ہے پروانوں سے کیوں
سیکڑوں شمعیں ہے ، اک بھی گل نہیں
.... یہ واضح نہیں ہوتا کہ گل شمع کے لیے کہا جا رہا ہے، خیال پھول کی طرف جا سکتا ہے، پھر بیانیہ میں یوں کہنا تھا کہ شمعیں سینکڑوں روشن ہیں، ایک بھی بجھی ہوئی یا گُل نہیں، محض شمعوں کی موجودگی سے بات نہیں بنتی۔ اس کے علاوہ محاورہ 'ایک بھی' ہے، اسے اک بھی بنا دینے سے وہ زور ختم ہو جاتا ہے

جو نشہ ساقی تری نظروں میں ہیں
اتنی زہریلی قسم سے مُل نہیں
... مُل؟ میر کی زبان میں تو مُل سے مراد 'لیکن' ہی ہوتی تھی جس کا یہاں محل نہیں

درمیانی اشعار درست ہیں

مسلئہ کشمیر سے تشبیہ دوں
اتنی بھی پرپیچ وہ کاکل نہیں
... مسئلۂ مفتعلن کے وزن پر ہوتا ہے فاعلن/فاعلا کے وزن پر نہیں

درد تکلیفیں ہے تب تک اے انیس
زندگی کی شمع جب تک گل نہیں
... 'ہوتی' کے بغیر صرف 'گُل نہیں' سے بات واضح نہیں
 

انیس جان

محفلین
... مُل؟ میر کی زبان میں تو مُل سے مراد 'لیکن' ہی ہوتی تھی جس کا یہاں محل نہیں
استاد محترم مل میرے خیال سے شراب کو بھی کہتے ہیں یہ میرے سامنے میر تقی میر کا ایک شعر ہے کہ
منعقد کاش مجلسِ مُل ہو
درمیاں تو ہو سامنے گُل ہو

اور اسی طرح ذوق کا بھی ایک بڑا پرلطف شعر ہے

محفل میں شور قلقل مینائے مل ہوا
لا ساقیا پیالہ کہ توبہ کا قل ہوا
غالب کا بھی کہ
ابھی دیوانگی کا راز کہہ سکتے ہیں ناصح سے
ابھی کچھ وقت ہے غالب ابھی فصل گل و مل ہے

باقی شعر بھی درستی کے بعد بھیجتا ہوں
 
Top