غزل برائے اصلاح

شہنواز نور

محفلین
ایک غزل پیش ہے اساتذہ سے اصلاح کی گزارش ہے
بے سری تال ہے آواز بھی ہے بے ڈھنگی
اب تو ہٹلر بھی بجانے لگا ہے سارنگی
تخت پر بیٹھ نہ جائے کہیں شیطان کوئی
بھیٹھ کر چھیڑ نہ دے ملک میں خانہ جنگی
کیوں اسے دیکھ کے ہم لوگ ڈرا کرتے ہیں؟
امن کا رنگ ہوا کرتا ہے جب نارنگی
اس میں ہندو بھی مسلماں بھی ہیں عیسائی بھی
پھول گلشن میں نہیں کھلتے کبھی یک رنگی
اس کو لے جا کے لگا دوں گا کبھی سنسد میں
یہ جو تصویر نظر آتی ہے بھوکی ننگی
بھوک سے بڑھ کے کوئی دھرم نہیں ہے پیارے
پیٹ چنگا ہو اگر آپ کا دنیا چنگی
نور تب جا کے کہیں لطفِ سفر آئے گا
دھوپ ہو ساتھ مرے چھاؤں تمہارے سنگی
 

الف عین

لائبریرین
آج ہی تاج پوشی ہو رہی ہے مودی جی کی!
بے سری تال ہے آواز بھی ہے بے ڈھنگی
اب تو ہٹلر بھی بجانے لگا ہے سارنگی
یہ مزاحیہ شعر لگتا ہے
سر اور تال موسیقی میں الگ الگ چیزیں ہیں، تال بے سری نہیں ہوتی۔
'لگا ہے' لگ ہے تقطیع ہوتا ہے
سر نہ آواز میں ہے، تال بھی ہے بے ڈھنگی
ہاتھ میں آ گئی ہٹلر کے بھی لو سارنگی
کیا جا سکتا ہے

تخت پر بیٹھ نہ جائے کہیں شیطان کوئی
بھیٹھ کر چھیڑ نہ دے ملک میں خانہ جنگی
.. 'بیٹھ کر ' دہراؤ مت
اور پھر چھیڑ دے.....
یا
چھڑ نہ جائے کہیں اس ملک..
کیا جا سکتا ہے

کیوں اسے دیکھ کے ہم لوگ ڈرا کرتے ہیں؟
امن کا رنگ ہوا کرتا ہے جب نارنگی
.... جب نارنگی؟ شعر واضح نہیں ہو سکا

اس میں ہندو بھی مسلماں بھی ہیں عیسائی بھی
پھول گلشن میں نہیں کھلتے کبھی یک رنگی
اس کو لے جا کے لگا دوں گا کبھی سنسد میں
یہ جو تصویر نظر آتی ہے بھوکی ننگی
.. دونوں درست

بھوک سے بڑھ کے کوئی دھرم نہیں ہے پیارے
پیٹ چنگا ہو اگر آپ کا دنیا چنگی
دوسرے مصرعے میں 'تو' کی کمی ہے
پیٹ چنگا ہے تمہارا تو ہے...

نور تب جا کے کہیں لطفِ سفر آئے گا
دھوپ ہو ساتھ مرے چھاؤں تمہارے سنگی
... سنگی تو اسم ہوتا ہے 'تمہاری سنگی' کر دو
 
Top