انیس جان
محفلین
الف عین
عظیم
محمد خلیل الرحمٰن
یاسر شاہ
داغ دہلوی کی زمین میں
ہوتا ہے درد جسم میں ہلکا اِدھر اُدھر
گرتا ہے جب درخت سے پتّا اِدھر اُدھر
بولا وہ رشکِ ماہ مجھے دیکھ باغ میں
"پھرنے دو آج اِس کو اکیلا اِدھر اُدھر"
جب سے ہوئے ہے ہم تری مژگان کے شکار
پہلو میں دل نہیں، ہے کلیجا اِدھر اُدھر
ٹوکا کبھی مجھے کبھی مسلا گلاب کو
غصّہ رقیب پر تھا نکالا اِدھر اُدھر
آ ساقیا تو، حال ذرا دیکھ بزم کا
ٹوٹے پڑے ہیں شیشہ و مینا اِدھر اُدھر
بد قسمتی تو دیکھ، وہ بیٹھےتھے جس میں ہم
ساحل پہ ڈولتا ہے سفینہ اِدھر اُدھر
بس دیکھتے ہی تجھ کو ترے در کے ہو گئے
اِس سر کو پھر نہ ہم نے جھکایا اِدھر اُدھر
اس حال سے پڑھوں گا میں جنت میں یہ غزل
بیٹھے ہو میر غالب و سودا اِدھر اُدھر
آیا تھا پھر گلی میں تمہاری انیس جی
پھرتا تھا منہ چھپائے وہ رسوا اِدھر اُدھر
عظیم
محمد خلیل الرحمٰن
یاسر شاہ
داغ دہلوی کی زمین میں
ہوتا ہے درد جسم میں ہلکا اِدھر اُدھر
گرتا ہے جب درخت سے پتّا اِدھر اُدھر
بولا وہ رشکِ ماہ مجھے دیکھ باغ میں
"پھرنے دو آج اِس کو اکیلا اِدھر اُدھر"
جب سے ہوئے ہے ہم تری مژگان کے شکار
پہلو میں دل نہیں، ہے کلیجا اِدھر اُدھر
ٹوکا کبھی مجھے کبھی مسلا گلاب کو
غصّہ رقیب پر تھا نکالا اِدھر اُدھر
آ ساقیا تو، حال ذرا دیکھ بزم کا
ٹوٹے پڑے ہیں شیشہ و مینا اِدھر اُدھر
بد قسمتی تو دیکھ، وہ بیٹھےتھے جس میں ہم
ساحل پہ ڈولتا ہے سفینہ اِدھر اُدھر
بس دیکھتے ہی تجھ کو ترے در کے ہو گئے
اِس سر کو پھر نہ ہم نے جھکایا اِدھر اُدھر
اس حال سے پڑھوں گا میں جنت میں یہ غزل
بیٹھے ہو میر غالب و سودا اِدھر اُدھر
آیا تھا پھر گلی میں تمہاری انیس جی
پھرتا تھا منہ چھپائے وہ رسوا اِدھر اُدھر