انیس جان
محفلین
الف عین
عظیم
تسلیم لکھنوی کی زمین میں غزل کہنے کی جسارت
خط وہ رکھتا ہے پکڑ کر زیرپا ؟بالائے سر؟
دیکھتے رہنا پیمبر زیرپا بالائے سر
تیری پتھریلی گلی میں آہ شیدا کو ترے
لگتے ہیں پتھر ہی پتھر زیرپا بالائے سر
ذرہ ذرہ ہے منور ساقی تیری بزم میں
دِکھ رہے ہیں مجھ کو اختر زیرپا بالائے سر
دل تو میں نے دے دیا اب جو بھی درجہ دو اسے
ہے تری مرضی ستمگر ، زیرپا؟ بالائے سر؟
وصل کی ہو شب یا چاہے ہجر کی لمبی سی رات
کاٹتا ہے مجھ کو اجگر، زیرپا بالائے سر
تو بھی سوجا اے دوانے شب ہے، ناصح نے کہا
اوڑھ لی ہرشے نے چادر زیرپا بالائے سر
جنوری ہو جون ہو ازبسکہ جو بھی ہو انیس
آگ رہتی ہے برابر زیرپا بالائے سر
عظیم
تسلیم لکھنوی کی زمین میں غزل کہنے کی جسارت
خط وہ رکھتا ہے پکڑ کر زیرپا ؟بالائے سر؟
دیکھتے رہنا پیمبر زیرپا بالائے سر
تیری پتھریلی گلی میں آہ شیدا کو ترے
لگتے ہیں پتھر ہی پتھر زیرپا بالائے سر
ذرہ ذرہ ہے منور ساقی تیری بزم میں
دِکھ رہے ہیں مجھ کو اختر زیرپا بالائے سر
دل تو میں نے دے دیا اب جو بھی درجہ دو اسے
ہے تری مرضی ستمگر ، زیرپا؟ بالائے سر؟
وصل کی ہو شب یا چاہے ہجر کی لمبی سی رات
کاٹتا ہے مجھ کو اجگر، زیرپا بالائے سر
تو بھی سوجا اے دوانے شب ہے، ناصح نے کہا
اوڑھ لی ہرشے نے چادر زیرپا بالائے سر
جنوری ہو جون ہو ازبسکہ جو بھی ہو انیس
آگ رہتی ہے برابر زیرپا بالائے سر
آخری تدوین: