غزل برائے اصلاح

السلام علیکم ۔۔۔ محفلین
ایک غزل پیش ہے اساتذہ سے اصلاح کی گزارش ہے ۔۔۔۔۔
غزل
تھا مجھے علم یہ الہام سے پہلے پہلے
کشتیاں ڈوب گئیں شام سے پہلے پہلے
جس کی خوشبو مری سانسوں میں بسی رہتی ہے
مل نہ پایا وہ مجھے شام سے پہلے پہلے
بے وفائی کا مرض جب سے لگایا اس نے
میں بھی ڈرتا ہوں کسی کام سے پہلے پہلے
اس کے وعدے پہ بھلا کون یقیں کرتا ہے
بھول سکتا ہے مرے نام سے پہلے پہلے
خوب بدنام کیا مجھکو زمانے بھر میں
نام میرا ہی لیا ہر نام سے پہلے پہلے
اس کی آنکھوں نے کیا مجھ پہ وہ مصباح اثر
چڑھ رہا اب تو نشہ جام سے پہلے پہلے
 

الف عین

لائبریرین
مبارک ہو مصباح میاں کہ غزل کے اوزان مکمل درست ہیں، لیکن ایک بنیادی غلطی مجھے یہ لگتی ہے کہ پہلے پہلے ردیف مکمل نباہی نہیں گئی ۔ مزے کی بات ہے کہ فراز کی اس زمین کی مشہور غزل میں بھی دو تین اشعار کو چھوڑ کر دو بار پہلے محاورہ کے خلاف ہے۔ ابھی دیکھا تو اس زمین میں فراز کے علاوہ کوئی اور غزل ملی ہی نہیں! بہر حال اسے درست ماننے کو جی تو نہیں چاہ رہا. لیکن مان لیتا ہوں اور دوسری اغلاط دیکھتا ہوں

تھا مجھے علم یہ الہام سے پہلے پہلے
کشتیاں ڈوب گئیں شام سے پہلے پہلے
.. کیا علم تھا؟ یہ کہ کشتیاں ڈوب گئی ہیں یا یہ کہ ڈوب جائیں گی! شعر واضح نہیں

جس کی خوشبو مری سانسوں میں بسی رہتی ہے
مل نہ پایا وہ مجھے شام سے پہلے پہلے
... شام سے پہلے ملتا تو؟ شعر دو لختِ لگتا ہے، محبوب کی خوشبو کا اس کے ملنے سے تعلق؟

بے وفائی کا مرض جب سے لگایا اس نے
میں بھی ڈرتا ہوں کسی کام سے پہلے پہلے
... اس کا بھی ربط کمزور ہے

اس کے وعدے پہ بھلا کون یقیں کرتا ہے
بھول سکتا ہے مرے نام سے پہلے پہلے
... دوسرا مصرع بے معنی ہے

خوب بدنام کیا مجھکو زمانے بھر میں
نام میرا ہی لیا ہر نام سے پہلے پہلے
... دوسرا مصرع خارج از بحر ہو گیا
نام میرا لیا ہر نام......
تو شعر درست ہو جائے گا

اس کی آنکھوں نے کیا مجھ پہ وہ مصباح اثر
چڑھ رہا اب تو نشہ جام سے پہلے پہلے
... ثانی مصرع میں 'ہے' کی کمی ہے، نشہ کا درست تلفظ ش پر تشدید کے ساتھ ہے، پہلے مصرعے کی روانی بھی بہتر ہو سکتی ہے
اس کی آنکھوں نے کیا مجھ پہ اثر یوں مصباح
نشہ اب چڑھنے لگا جام سے پہلے پہلے
بہتر ہے
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ایک بات اور ۔۔۔ اگر ناگوار نہ گزرے!
الہام کا لفظ درست نہیں ۔۔۔ جس مضمون میں استعمال ہوا، اس سے گریز ہی بہتر ہے!
 
تھا مجھے علم یہ الہام سے پہلے پہلے
ڈوب جائےگی یہ کشتی شام سے پہلے پہلے

جس کے چھونے سے مرا تن بھی مہک جاتا ہے
مل نہ پایا وہ مجھے شام سے پہلے پہلے

بے وفائ کا مرض جب سے لگا ہے اسکو
شرط لازم ہے, ہر اک کام سے پہلے پہلے

اس کے وعدے پہ بھلا کون یقیں کرتا ہے
بھول جاتاہے وہ شام سے پہلے پہلے

خوب بدنام کیا مجھکو زمانے بھر میں
نام میرا لیا ہر نام سے پہلے پہلے

اس کی آنکھوں نے کیا مجھ پہ اثر یوں مصباح
نشہ اب چڑھنے لگا جام سے پہلے پہلے

الف عین محترم.... نظر ثانی کرنے کی زحمت کریں...شکریہ
 
ایک بات اور ۔۔۔ اگر ناگوار نہ گزرے!
الہام کا لفظ درست نہیں ۔۔۔ جس مضمون میں استعمال ہوا، اس سے گریز ہی بہتر ہے!
شکریہ....جناب ناگوار کچھ بھی نہیں ہم تو ایک ادنی سے طالب علم ہیں....سیکھنے کے لیے آءے ہیں.....شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
آخری دو اشعار درست ہو گئے ہیں
دو مصرعوں کے بحر سے خارج ہونے کی بات ہو چکی ہے
باقی ہر شعر مجھے اب بھی دو لخت محسوس ہوتا ہے اور پچھلے کمنٹس ہی ان پر بھی منطبق ہوتے ہیں
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
الہام سے مراد میری نظر میں خدا کا براہ راست پیغام ہے جو بندوں پر اترتا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں وحی اور الہام الگ ہوتا ہے۔ اگر یہی بات ہے تو قرآن کو وحی کردہ کتاب کہہ کر بس کردیں، الہامی کتاب نہیں کہنا چاہئے۔ لیکن ہم قرآن، تورات انجیل اور زبور کو الہامی کتابیں مانتے ہیں۔ سو میری بحث اس لفظ سے ہے کہ اس سے مراد ایسا براہ راست خدائی پیغام ہے جس میں غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی اور کسی عام انسان کی اوقات نہیں کہ اسے الہام ہو یا وحی کی جائے۔ یہ صرف پیغمبری کی سطح کی بات ہے۔
 
Top