غزل برائے اصلاح

شہنواز نور

محفلین
آداب ۔۔۔ محفلین ۔۔۔ غزل پیش ہے اساتذہ سے اصلاح کی گزارش ہے ۔

توڑ دی اشکوں نے حد آنکھوں کا ساحل پھٹ گیا
ساتھ میرا چھوڑ کر تم کیا گئے دل پھٹ گیا
گفتگو کے نام پر دیتا رہا وہ گالیاں
میں نے لب جو سی لئے ۔ تو منھ سے جاہل پھٹ گیا
دشمنانِ بزم کے آداب یاد آنے لگے
آج کالر جب مرا یارانِ محفل پھٹ گیا
یوں لگا جیسے کہ ہو عزمِ سفر کا اختتام
آبلہ جب پیر کا ۔ تھی پاس منزل پھٹ گیا
ایک تو دنیا کے غم تھے ۔ اس پہ تم بھی دے گئے
ہو گیا تھا سب کو رکھنا دل میں مشکل پھٹ گیا
گر کبھی فرصت ملے تو آ کے سِل جائیں اسے
جا کے کہنا ان سے قاصد زخمِ بسمل پھٹ گیا
تھا جو سر مایہ بزرگوں سے ملی تہذیب کا
ہاتھ سے بچّوں کے وہ اردو کا ناول پھٹ گیا
دل نہیں شاید مرے سینے میں ہے ماتم کدہ
جو ہوا اس نوحہ خوانی میں بھی شامل پھٹ گیا
جب کتابِ زیست میں ہم نور حق لکھنے لگے
زندگی کے ہر ورق سے نامِ باطل پھٹ گیا
 

الف عین

لائبریرین
ردیف پسند نہیں آئی اگرچہ بڑی اچھی طرح نبھائی گئی ہے ۔ درست ہی ہے عزل۔ ایک دو کچھ بہتری کی صورتیں ہیں، اس کے علاوہ اوقاف بلکہ محض کوما ضرور لگایا کرو، جیسے بطور خاص
آبلہ جب پیر کا، تھی پاس منزل، پھٹ گیا

ایک تو دنیا کے غم تھے ۔ اس پہ تم بھی دے گئے
ہو گیا تھا سب کو رکھنا دل میں مشکل پھٹ گیا
... پہلا مصرع یوں شاید بہتر ہو
.. اور کچھ تم دے گئے

گر کبھی فرصت ملے تو آ کے سِل جائیں اسے
زیادہ فصیح میرے خیال میں 'سی جائیں' ہے، جو درست محاورہ ہے سلنا دراصل objective case ہے، کپڑے سل گئے، درزی نے سی دیے
 

شہنواز نور

محفلین
الف عین سر پہلے میں نے ردیف۔۔۔ پھٹ پڑا ۔۔۔ استعمال کی تھی مگر اسے تبدیل کر ۔۔۔۔ پھٹ گیا ۔۔۔۔ کر لی ۔۔۔۔ کیا پھٹ پڑا ۔۔۔ بہتر تھی؟
بہت شکریہ سر
 
Top