غزل برائے اصلاح

سر الف عین صاحب ، یاسر شاہ اور دیگر تمام احباب سے اصلاح کی گزارش ہے

کوئی روتا نہیں حالات رلا دیتے ہیں
دل کی تنہائی میں طوفان اٹھا دیتے ہیں

تھا تقاضا یہ ہمارا ترے پاؤں میں رہیں
تُو نے دھتکار دیا پھر بھی صدا دیتے ہیں

تُو نے نشتر سے کریدے ہیں ہمارے سب زخم
ظرف ہے پھر بھی ہمارا کہ دعا دیتے ہیں

ٹھوکریں مار کے کوئی کبھی گذرے جو ہمیں
اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو گلہ دیتے ہیں۔

چند لمحوں کی مسافت سے ملے روگ کئی
کیا عجب، لوگ وفاؤں کا سلہ دیتے ہیں

بے حسی بڑھ گئی اتنی کہ زمانے والے۔
جام کی آڑ میں بھی زہر پلا دیتے ہیں

چار ٹکڑے کِیا سجاد ہمارا خط بھی۔
کتنے معصوم وہ تھے، اب جو سزا دیتے ہیں
 

عظیم

محفلین
چوتھے شعر میں' گلہ دینا' محاورے کے خلاف لگتا ہے
اور۔ ٹھوکریں مار کے گزرے جو کبھی کوئی ہمیں، زیادہ رواں مصرع ہو گا
مقطع کو واضح کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر خط کے ٹکڑے کر کر سزا دینے والی بہت دور کی ہو گئی ہے اور جرم وغیرہ کا ذکر نہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
عظیم سے متفق ہوں، مزید یہ کہ
تھا تقاضا یہ ہمارا ترے پاؤں میں رہیں
تُو نے دھتکار دیا پھر بھی صدا دیتے ہیں
پاؤں واحد میں رہنا محاورہ نہیں، پیروں بھی مناسب نہیں، ہاں، قدموں کیا جا سکتا ہے
 
آخری تدوین:
عظیم سے متفق ہوں، مزید یہ کہ
تھا تقاضا یہ ہمارا ترے پاؤں میں رہیں
تُو نے دھتکار دیا پھر بھی صدا دیتے ہیں
پاؤں واحد میں رہنا محاورہ نہیں، پیروں بھی مناسب نہیں، ہاں، قدموں کیا جا سکتا ہے
شکریہ سر بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہوں
 
Top