سید تنویر رضا
محفلین
نہ بات مانتا میری نہ بات مانی تھی
کہ دل نے پہلے سے ہی خودکشی کی ٹھانی تھی
یہ بہ رہیں تھے کسی بے وفا کی فرقت میں
اے چشم یہ ترے اشکوں کی رائیگانی تھی
میں سارا وقت مرا شاعری کو دےدیتا
شکم کی آگ بھی مجھ کو مگر بجھانی تھی
وہ لےرہا تھا ابھی مجھسے انتقام مگر
میں جانتا تھا عداوت بڑی پرانی تھی
مجھے کیا دلِ دنیا پرست نے برباد
وگرنہ میرے مقدر میں کامرانی تھی
نہ کوئی رختِ سفر تھا نہ ہمسفر کوئی
میانِ کرب سفر میری نوحہ خوانی تھی
اسی لیے میں اتر آیا بے وفائی پر
وفا جو وعدہ فراموش کو سکھانی تھی
کہی ہے میں نے جو تنویر شاہکار غزل
سو مجھ کو اہل سخن سے یہ داد پانی تھی
الف عین سر
الف عین
کہ دل نے پہلے سے ہی خودکشی کی ٹھانی تھی
یہ بہ رہیں تھے کسی بے وفا کی فرقت میں
اے چشم یہ ترے اشکوں کی رائیگانی تھی
میں سارا وقت مرا شاعری کو دےدیتا
شکم کی آگ بھی مجھ کو مگر بجھانی تھی
وہ لےرہا تھا ابھی مجھسے انتقام مگر
میں جانتا تھا عداوت بڑی پرانی تھی
مجھے کیا دلِ دنیا پرست نے برباد
وگرنہ میرے مقدر میں کامرانی تھی
نہ کوئی رختِ سفر تھا نہ ہمسفر کوئی
میانِ کرب سفر میری نوحہ خوانی تھی
اسی لیے میں اتر آیا بے وفائی پر
وفا جو وعدہ فراموش کو سکھانی تھی
کہی ہے میں نے جو تنویر شاہکار غزل
سو مجھ کو اہل سخن سے یہ داد پانی تھی
الف عین سر
الف عین