غزل برائے اصلاح

فیضان قیصر

محفلین
ان دنوں حال دل کا ایسا ہے
تم نے بچہ بلکتا دیکھا ہے؟؟
میری نم آنکھ میں چھپا شکوہ
زندگی بھر کی بے دلی کا ہے
آج تو بے سبب اداسی ہے
آج یہ کیا نیا تماشا ہے
زندگی تو گزر ہی جائے گی
دل بھی زندہ رہے تو اچھا ہے
میں تو بس آسماں کو تکتا ہوں
"میں نہیں جانتا دعا کیا ہے"
کوئی شکوہ نہیں رہا تم سے
دل میں بس اب ملالِ شکوا ہے
وہ ہے فیضان سامنے دیکھو
وہ جو گم سم اداس بیٹھا ہے
 

الف عین

لائبریرین
کوئی شکوہ نہیں رہا تم سے
دل میں بس اب ملالِ شکوا ہے
واضح نہیں
باقی سارے اشعار درست ہیں، بہتری کی کوشش ضرور کی جا سکتی ہے
 
Top